• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روشنیوں، خوشبوؤں کے شہر، ’’ شہرِ محبت‘‘ پیرس کا سفر ( قسط نمبر3)

دریائے سین کے پُل کی دوسری طرف وسیع و عریض سبزہ ہے، جہاں بڑی تعداد میں سیّاح کچھ دیر سستانے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایفل ٹاور کے رُوبروگزرتا وقت ہمارے لیے حسین یادوں کا خزانہ بنتا جارہا تھا۔ پیرس میں  موسمِ گرما کا سورج رات دس بجے غروب ہوتا ہے اور ابھی مغرب میں کافی وقت تھا۔ ہم ایفل ٹاور کے آخری کونے پر ’’ٹھوکا ڈپوو‘‘(Trocadero) کی سیڑھیوں کی جانب بڑھے، تاکہ ایفل ٹاور کے اس مشہور چبوترے تک پہنچا جاسکے، جس کا شماراس بلند ترین ٹاور کی بہترین تصویر کشی کے مقامات میں سرِفہرست ہے۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے متعدد فوٹوگرافرز کئی نوبیاہتا جوڑوں کی مختلف زاویوں سے تصاویر کھینچتے نظر آئے۔ 

دراصل ان سیڑھیوں پرپیرس اور گردونواح کے نوبیاہتا جوڑے عروسی ملبوسات میں اپنی شادی کی تصاویر اتروانے ضرور آتے ہیں۔ وسیع و عریض چبوترے پر پہنچے، تو بے شمارسیّاح اپنے تئیں بہترین تصاویر کھینچنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ ہم نے بھی کچھ تصاویر لیں۔ سورج غروب ہوا تو ٹاور پر لگے قمقمے روشن ہوگئے۔ یہ ایک بڑا دل فریب منظر تھا۔ پورے ٹاور نے جیسے روشنی کا لباس پہن لیا تھا۔ ابھی ہم اس خُوب صورت نظارے سے لُطف اندوز ہوہی رہے تھے کہ محسن بھائی کی کال آگئی۔ وہ ہمیں لینے کے لیے ٹاور کے مرکزی شاہ راہ پر پہنچ چکے تھے۔ اُن کی گاڑی میں بیٹھے تو کہنے لگے کہ’’آج آپ کو اس علاقے میں لے کر جاتا ہوں، جس کی وجہ سے پیرس کو ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ ہم نے پُراشتیاق لہجے میں جگہ کا نام پوچھا، تو بولے ’’شانزے لیزے۔‘‘

شانزے لیزے(Champs-Élysées) کا نام ہمارے لیے نیا نہیں تھا، اس علاقے کے حوالے سے کئی سفرناموں میں تفصیلی ذکر پڑھنے کے علاوہ اس کے بعض مناظر ویڈیوزمیں بھی دیکھ رکھے تھے۔ اب وہ لمحہ آگیا تھا، جب روشنی میں نہائی ہوئی اس ٹورسٹ اسٹریٹ کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ پلیس ڈی لا کنکورڈاسکوائر کے مغربی جانب مشہور شانزے لیزے اسٹریٹ، فرانس کے دو مشہور پبلک اسکوائرز کے درمیان سے گزرتی ہے۔

مشہور چرچ، ’’نوٹرڈیم‘‘
 مشہور چرچ، ’’نوٹرڈیم‘‘

یہ شاہ راہ اپنے کیفیز، تھیٹرز اور پُرآسائش اشیاء سے لدی پھندی دکانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنی الگ پہچان رکھتی ہے اور اس کا نام یونانی دیومالائی داستانوں سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ’’یونانی دیوتائوں اورآنجہانی ہیروز کی آرام گاہ۔‘‘1910 میٹر (کم و بیش دو کلومیٹر) طویل شاہ راہ پر ہر سال فرانس کے قومی دن کے موقعے پر ’’باستل ڈے ملٹری پریڈ‘‘ منعقد کی جاتی ہے اور اسے دنیا کی قدیم ترین ملٹری پریڈ بھی مانا جاتا ہے، جب کہ یہیں  ’’ٹورڈی فرانس ریس‘‘ کا اختتام بھی ہوتا ہے۔ 

شانزے لیزے شاہ راہ کو اٹھارہویں صدی میں فیشن ایبل ایونیو کا درجہ ملا اور پھر 2008ء میں جب دنیا کے بڑے برانڈز کو یہاں دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی، تو گویا ایک سڑک پرپورا ایک جہاں آباد ہوگیا۔ روشنیوں کے شہر، پیرس کے حوالے سے کئی تھیوریز پیش کی جاتی ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ آج پیرس میں 296سے زیادہ روشن ترین مقامات ہیں۔ یہاں کے لاتعدد گرجاگھر، مجسّمے، چشمے، قومی عمارتیں، تاریخی یادگاریں اور 37بڑے بڑے پُل غروبِ آفتاب کے بعد پوری شان و شوکت سے روشن ہوجاتے ہیں، جب کہ کسی قومی و مذہبی تہوار کے موقعے پر تو اِن روشنیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور پورا علاقہ ہی بُقعہ نُور بن جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر رات کی تاریکی میں چمکتا ایفل ٹاور۔ اور یہ سب نُور کے پیکر ہی پیرس کو روشنیوں کا شہر کہنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ 

روشنیوں کا یہ شہر، خوشبوئوں کے دیس کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں ہر طرح کے پرفیومز اورمختلف قسم کے عطر، نہ صرف تیار کیے جاتے ہیں، بلکہ دنیا کے ہر برانڈ کا پرفیوم یہاں مل بھی جاتا ہے۔ تاریخی روایت کے مطابق، سن کنگ یعنی لوئس چہار دہم (Louis XIV) کو پرفیومز یعنی خوشبوئوں کا بہت شوق تھا۔ اس کے شوق کا عالم یہ تھا کہ اس نے کورٹ آف ورسیلز (Versailles)کے چشموں کے پانی کو بھی مختلف خوشبوئوں سے معطر کردیا تھا۔ یہاں پہلے خوشبوئیں باہر سے منگوائی جاتی تھیں، پھر فرانس نے خود پرفیوم بنانے کے لیے ضروری جوہر تیار کرنا شروع کردیئے۔ عطریات کشید کرنے کے جدید طریقوں کی ایجاد سے خوشبو بنانے والوں کے لیے امکانات کا میدان کافی وسیع ہوگیا اور پھر اسی زمانے میں کیمسٹری کے عروج نے مصنوعی خوشبو کی صنعت کو مزید ترقی بخشی۔ تو یوں،اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ پرفیومز برآمد کرنے والا ملک فرانس ہی ہے۔

شانزے لیزے پر ہم ایک طرف سے گئے اور آخری موڑ پر دوسری طرف سے واپسی کا سفر شروع کیا۔ اطراف میں پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص راستے پر سیّاحوں کا ہجوم رواں دواں تھا۔ مختلف اشیاء اور انواع و اقسام کے خورونوش سے مزّین ہوٹلز شائقین سے بَھرے ہوئے تھے۔ محسن بھائی نے گاڑی پارکنگ ایریا میں پارک کی اور ہم پیرس نائٹ کے نظارے لیتے شانزے لیزے کی مرکزی شاہ راہ پر چلتے ہوئے گلیوں میں نکل گئے، جہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی ہیوی بائیکس کے ساتھ کھڑے سگریٹ اور مشروبِ مغرب نوش کررہے تھے۔ ہر طرف مختلف روپ، بہروپ دھارے مقامی نوجوان لڑکے، لڑکیاں حسین شام سے پوری طرح لُطف اندوز ہو رہے تھے۔ ریسٹورنٹس، کافی شاپس کے ویٹرز، راہ گیروں کو اندر آنے کی دعوت دے رہے تھے، لیکن ہم سارے دن کے تھکے ماندے مسافر تھے، اور پھر ہمارے لیے شانزے لیزے کی رات کے مناظر سے اتنا لطف اندوز ہونا ہی کافی تھا، لہٰذا واپس ہوٹل کی راہ لی۔

رات کو تھکن سے چُور ہونے کی وجہ سے کچھ کھائے بغیر ہی بستر پر دراز ہوئے تو فوراً ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ صبح اُٹھے، تو شدید بھوک کا احساس ہوا، لہٰذا بجائے ہوٹل میں کچھ کھانے پینے کے، ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ایک بیکری سے بھرپور ناشتا کیا اور ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر مشہور سیّاحتی مقام، ’’ڈزنی لینڈ‘‘ دیکھنے روانہ ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ ’’والٹ ڈزنی‘‘ اکثر اپنے بچّوں کے ساتھ سیر کو جایا کرتے تھے۔ 

انہوں نے محسوس کیا کہ زیادہ تر سیرگاہیں بڑوں کے لیے ہیں اور بچّوں کے لیے بس برائے نام ہی تفریح کی جگہیں ہیں، لہٰذا اُنھوں نے سوچا کہ کوئی ایسا پارک تعمیر کرنا چاہیے، جہاں بچّے اور بڑے ایک ساتھ لُطف اندوز ہوسکیں اور اپنی اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 1953ء میں امریکا کے شہر،لاس اینجلس کے گرد و نواح میں160ایکڑ اراضی خریدی اور اس پر ایک منفرد پارک تعمیر کرواکر اسے ’’ڈزنی لینڈ‘‘ کا نام دے دیا، جہاں بچّوں کے ساتھ ساتھ پھر بڑے بھی بچّوں ہی کی طرح لُطف اندوز ہونے لگے۔ والٹ ڈزنی کا یہ منصوبہ کام یابی سے ہم کنار ہوا اور پہلے ہی سال پارک میں آنے والوں کی تعداد 10لاکھ تک جا پہنچی۔ 

ایک منفرد سوچ کے تحت قائم کیے جانے والے اس پارک کی اہمیت و شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج امریکا کے علاوہ ٹوکیو، پیرس، ہانگ کانگ، شنگھائی سمیت کئی اور ممالک میں بھی ’’ڈزنی لینڈ‘‘ کے نام سے پارکس موجود ہیں۔ فرانس کے ڈزنی لینڈ میں دو تھیم پارکس، ریزورٹ ہوٹل، ڈزنی نیچرریزورٹس، شاپنگ مال، ڈائننگ اور انٹرٹینمنٹ کمپلیکس کے علاوہ ایک گالف کورس بھی ہے۔ ڈزنی لینڈ کی مختصر سیر کے بعد ہم پارک میں بیٹھ کر یورپ کے پھلوں سے لطف اندوز ہوئے، جو ہم نے آتے ہوئے اسٹیشن کے قریب موجود فروٹ شاپ سے خریدے تھے۔ یہاں سے نکلے تو صدیوں پرانے مشہور چرچ، ’’نوٹرڈیم‘‘ جاپہنچے، مگر اس وقت اس تاریخی عمارت کی مرمّت اور تزئین و آرائش کا کام جاری تھا۔ 

واضح رہے کہ اپریل 2019ء میں اس کیتھولک چرچ میں آتش زدگی کے باعث عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا، جس کے باعث چرچ میں سیّاحوں کا داخلہ بند تھا، لیکن چرچ کی سامنے ایک چھوٹے سے لان اور اس کے دوسری طرف بیٹھنے کے لیے اسٹیڈیم کے طرزپرجگہ مختص ہے۔ جہاں سیّاح، خصوصاً دنیا بھر سے آنے والے کیتھولک، احترام سے بیٹھ کر چرچ کی زیارت کرتے ہیں۔ ہم نے بھی وہاں تصاویر بنائیں۔ سورج غروب ہونے میں خاصا وقت تھا، ہلکی ہلکی دھوپ میں مختلف رُوٹس کی دوزیرِزمین ٹرینیں بدلنے کے بعد ہم ایک بارپھر شانزے لیزے پہنچ گئے۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ شانزے لیزے پہ ٹریفک رواں دواں تھی اور شاہ راہ کے دونوں دونوں طرف دنیا بھر کے مشہور برانڈز کی دکانیں خریداروں سے بَھری ہوئی تھیں۔ سو، ہم نے بھی وہاں سے دنیا کے منہگے ترین پرفیومز سے خود کو مہکایا۔

سورج نے دن کے اختتام کی اطلاع دی، تومحسن بھائی کی کال آگئی، ہم نے انہیں اپنی لوکیشن بھیجی اور کچھ ہی دیر میں وہ ہمیں لینے آگئے۔ انہوں نے سارے دن کا احوال پوچھا، ہم نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’نیشنل میوزیم نہیں دیکھ سکے۔‘‘ کہنے لگے ’’میوزیم کا وقت سہ پہر 6بجے تک ہوتاہے، جو گزرچکا ہے، مگر اس عمارت کو باہر سے دیکھنا بھی خوش گواراحساس سے روشناس کرتا ہے۔‘‘ گاڑی پارک کرکے ہم نے میوزیم کی عمارت پر نظر دوڑائی، تو کئی صدیوں کی تاریخ، عمارت کی صورت سامنے جگمگا رہی تھی۔ ارتقائے انسان و حیوانات، تہذیب و تمدّن، سیاسی تاریخ، جنگ و جدل، سائنس، معیشت، طب کے نایاب خزانوں اور خصوصاً مشہور زمانہ مونا لیزا کی پینٹنگ نہ دیکھنے کا افسوس آج بھی دل میں زندہ ہے۔ 

خیر، رات دس بجے ہوٹل پہنچے، تو محسن بھائی نے اپنی گاڑی سے ڈنر کا سامان نکالنا شروع کردیا۔ ہم ہوٹل کے لان ہی میں لوہے کی میزکے گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ جون کی ٹھنڈی شام نے ماحول کو خاصا رومان پرور کر رکھا تھا۔ محسن بھائی ہمارے لیے گھر سے دیسی کھانا پکواکر لائے تھے۔ مٹن قورما، چکن بریانی، چکن روسٹ، سلاد، رائتہ اور مقامی مٹھائیاں۔ کھانا اتنا لذیذ تھا کہ اُس کا ذائقہ آج بھی زبان پر ہے۔ کھانے کے بعد رات گئے تک لان میں بیٹھے گفتگو کرتے رہے، اگلی صبح آصف علی کو واپس برطانیہ جانا تھا اور ہمیں بارسلونا (اسپین) کی فلائٹ لینا تھی۔ واپسی کے لیے آصف علی کی فلائٹ کو چارلس ڈیگال ائرپورٹ سے، جب کہ ہماری فلائٹ کو ’’بووے ائرپورٹ‘‘ سے اُڑان بھرنا تھی۔ پوخت مایو سے بس نے شہر بووے کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ 

مختلف رہائشی علاقوں سے گزرتے ہوئے ہم فرانسیسی طرزِ تعمیر اور شہر کے رہائشی پلان وغیرہ کا جائزہ لینے لگے۔ پیرس شہر کا یہ علاقہ اسلام آباد سے کافی ملتا جلتا ہے۔ فضا صاف، مگر ہلکی نمی کا احساس لیے ہوئے تھی۔ سڑک پر کہیں دھول، مٹّی کا نام و نشان تک نہیں تھا، جس کی وجہ سے مرکزی شاہ راہ کے اطراف بنے گھر بھی اُجلے اُجلے اورنکھرے دکھائی دے رہے تھے۔ آدھ گھنٹے بعد بس شہر کی حدود سے نکلی، تو سڑک کے دونوں طرف گھنے درختوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کہیں کہیں سبزے کی چادر تانے کھلے میدان پروسیع وعریض کھیت بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ہلکی سی ڈھلوان والے سرسبز وسیع میدان اسلام آباد سے پشاور موٹر وے جیسا منظر لیے ہوئے تھے۔ ائرپورٹ سے چند کلو میٹر پہلے مختلف آلات سازی کی کمپنیز کے گودام اور فیکٹریز دکھائی دیں،جو بووے شہر کی پہچان ہے۔

کچھ دیربعد بس نے ہمیں بووے ائرپورٹ پر اتار دیا۔ جہاز ایک گھنٹہ لیٹ تھا۔ ائرپورٹ کی ڈیوٹی فری شاپس قدرے مسافر نواز معلوم ہوئیں، تو کچھ خریداری کی جرأت کی۔ دن کے تین بج رہے تھے، بھوک سے بُراحال ہورہا تھا۔کچھ کھانے پینے کے غرض سے ٹرمینل میں واقع بیکری میں حلال فوڈ تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کرنے لگے۔ بیکری کا عملہ انگریزی زبان کے ایک لفظ سے بھی آشنا نہیں تھا۔ کتنی ہی دیر ہم اشیائے وخوروونوش کا جائزہ لیتے رہے، لیکن سب ہی کے نام اور اجزاء فرانسیسی زبان میں درج تھے۔ 

حلال وحرام کی تمیز ممکن نہ ہوسکی، تو ہم نے قریب کھڑی ایک دراز قد محترمہ سے انگریزی میں مدد کی درخواست کی، لیکن ان کی انگریزی پر دسترس بھی ہماری ہی طرح تھی، لہٰذا حلال فوڈ کا حصول ناممکن ہی ہوگیا۔ اب ہمیں ڈیڑھ گھنٹے کی اس پرواز میں مزید بھوک برداشت کرنا تھی، لیکن روح کو اس احساس سے غذا مل رہی تھی کہ جہاز اُس ملک کی طرف پرواز کررہا ہے، جہاں مسلمانوں نے تقریباً سات سوسال حکومت کی تھی۔ 

جہاز فضا میں بلند ہوا تو ’’شہرِ محبّت‘‘ کی فضائوں کو الوداعی سلام کرتے ہوئے فیض احمد فیض کی وہ نظم یاد آگئی، جو انہوں نے پیرس کے حوالے سے کہی تھی؎ دن ڈھلا کوچہ و بازار میں صف بستہ ہوئیں .....زرد رُو روشنیاں .....اُن میں ہر ایک کے کشکول سے برسیں رم جھم .....اس بھرے شہر کی ناآسودگیاں .....دُور پس منظر افلاک میں دھندلانے لگے .....عظمتِ رفتہ کے نشاں .....پیش منظر میں .....کسی سایۂ دیوار سے لپٹا ہوا سایہ کوئی .....دوسرے سائے کی موہوم سی اُمید لیے .....روزمرّہ کی طرح .....زیرِلب .....شرح بے دردیٔ ایام کی تمہید لیے .....اور کوئی اجنبی .....ان روشنیوں، سایوں سے کتراتا ہوا .....اپنے بے خواب شبستاں کی طرف جاتا ہوا۔ (جاری ہے)