• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات میں دھاندلی کی شکایتوں کا فوری ازالہ ہونا چاہئے،تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکی خصوصی نشریات ”جوڑ توڑ، کون، کیسے، کہاں“ میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی شکایتوں کا فوری ازالہ ہونا چاہئے،ن لیگ کو سمجھنا ہوگا کہ اب ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر قبولیت کے ساتھ انتخابات نہیں لڑے جاسکتے.

پی ٹی آئی کے طرز سیاست کی وجہ سے کوئی جماعت ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی ساتھ نہیں بیٹھیں تو اس کا نتیجہ اسمبلی کی تحلیل ہوگا،اس وقت زیادہ امکانا ت نظر آرہے ہیں کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی مل کر مخلوط حکومت بنائے۔ 

سینئر صحافی و تجزیہ کارشاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ن لیگ کے ووٹر کو بہت متاثر کرتا ہے.

 2018ء میں ریاستی جبر کے باوجود ووٹر نے اس بیانیہ پر ن لیگ کو جتوایا تھا، عمران خان کو ایک کے بعد ایک کیس میں سزاؤں سے ن لیگ کے ووٹر میں تاثر گیا ہمارا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اسی لیے وہ نہیں نکلے.

 نواز شریف اکتوبر میں واپس آئے پھر جنوری کے درمیان تک غائب ہوگئے، ن لیگ نے اپنی انتخابی مہم بھی بہت تاخیر سے شروع کی، ن لیگی قیادت کی سستی ان کے ووٹر سپورٹرز کو نکالنے میں ناکام رہی، اس کے مقابلہ میں عمران خان کی حکومت گئی تو انہوں نے تسلسل کے ساتھ جلسے کیے تھے، جس دن جلسے نہیں کرتے سات بجے آکر قوم سے خطاب کرتے تھے۔ 

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کی شکایتوں کا فوری ازالہ ہونا چاہئے، کہیں ایسی حکومت نہ بن جائے جس کے پاس مینڈیٹ نہ ہو، تحریک انصاف کے الزامات درست ہیں تو فوری فیصلہ کیا جائے، فارم 47پر اگر فیصلہ ہونے لگ گیا تو آئندہ الیکشن بے معنی ہوجائیں گے، فارم 45کی بہت اہمیت ہے ان کی تصدیق ہونا لازمی ہے۔

سینئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ پنجاب میں اس دفعہ جس طرح انتخاب لڑا گیا ماضی میں کبھی نہیں لڑا گیا، پنجاب میں ن لیگ کیخلاف ووٹ پڑا ہے چاہے وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کیوں نہ ڈالے گئے ہوں، نواز شریف مزاحمتی بیانیہ لائے تو پنجاب میں انہیں بھرپور پذیرائی ملی، جب وہی مزاحمتی بیانیہ عمران خان لائے تو انہیں پذیرائی ملی.

 ن لیگ کو سمجھنا ہوگا کہ اب ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر قبولیت کے ساتھ انتخابات نہیں لڑے جاسکتے، انتخابات جیتنے کیلئے عوام کے درمیان جانا ہوتا ہے، اس دفعہ وہ نوجوان اور خواتین ووٹرز نکلے جو کبھی نہیں نکلے تھے، پاکستان کی سیاست میں پہلی بار ہوا ہے کہ گھروں میں بیٹھے لوگوں نے اپنے غم و غصہ اور احتجاج کا ووٹ کے ذریعہ کیا جس کا فائدہ عمران خان کو پہنچا۔سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بامر مجبوری ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا

 پی ٹی آئی کے طرز سیاست کی وجہ سے کوئی جماعت ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی ساتھ نہیں بیٹھیں تو اس کا نتیجہ اسمبلی کی تحلیل ہوگا، مولانا فضل الرحمن کو اتنی بری شکست ہوئی ہے کہ حکومت کے ساتھ ان کی حیثیت ایک دم جیسی ہوگی.

 نواز شریف اور شہباز شریف پھر بھی مولانا فضل الرحمٰن کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار، شہزاد اقبال نے کہا کہ اس وقت زیادہ امکانا ت نظر آرہے ہیں کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی مل کر مخلوط حکومت بنائے۔

اس وقت قومی اسمبلی کے5 آزاد ارکان وہ ن لیگ میں شامل ہوچکے ہیں۔انتخابی نتائج کی بڑی تعداد کے بارے میں یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ دھاندلی ہوئی تھی ۔خاص طور پر فارم45 فارم47 کے نتائج سے مطابقت نہیں رکھتے۔ 

اہم خبریں سے مزید