اسلام آباد (ایجنسیاں)جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کو اپوزیشن میں بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا حصہ بنیں گے نہ وزارت عظمیٰ کیلئے شہباز شریف کو ووٹ دیں گے ‘پارلیمنٹ میں اپنی حیثیت کے ساتھ جائیں گے اور کسی بھی پارٹی کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں کریں گے‘ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے میں ناکام ہوگیا ہے‘موجودہ انتخابات نے 2018کی دھاندلی کا بھی ریکارڈ توڑ ڈالا ہے‘الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال رہا ہے اور پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے‘ایسا لگ رہا ہے کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں بلکہ میدان میں ہوں گے ‘اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ انتخابات شفاف ہوئے ہیں تو 9مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا ہےاورقوم کے غداروں کو مینڈیٹ دیا گیا ‘ اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست کریگی تو ہم بھی سیاست سے جواب دیں گے‘ہماری بات کسی نے نہیں مانی ہے اور اب ہم بھی کسی کی بات نہیں مانیں گے‘ کارکن تیار رہیں ‘دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے ‘پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا جھگڑا جسموں کا نہیں ذہنوں کا ہے وہ بھی جلد ختم ہو جائیگا‘ہم مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے تابعدار نہیں ہیں‘مسلم لیگ کس انداز سے میاں صاحب کو لائی تھی؟۔ بدھ کو مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہاکہ جے یوآئی کی مجلس عاملہ نے مجلس عمومی کو سفارش کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک ماحول میں الیکشن کو شفاف بنایا جاسکے‘جے یوآئی جان بوجھ کر کو شکست سے دوچار کیا گیا ،ہمارا جرم یہ تھا کہ ہم افغانستان میں پر امن حکومت کے قیام اور دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے کوششیں کر رہے تھے جو امریکا سمیت عالمی طاقتوں کو قبول نہیں تھے۔جے یوآئی اپنے عظیم تر مقصد کیلئے تحریک چلائیگی۔ انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا روز اول سے کردار مشکوک رہا ہے۔ جماعت نے نظرثانی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے ‘ ہم میدان میں آئیں گے اور ہم نے کسی اور تیور کے ساتھ بات کی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم اگلی تحریک کا شیڈول اور طریقہ کار جماعت کی مشاورت کے ساتھ جاری کریں گے ‘اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو ہمارا ساتھ دیں ‘اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دستبردار ہوجائے تو ہمارے سروں کا تاج ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ میرے اندر اور میری جماعت کے اندر ضمیر موجود ہے۔ پچھلی دفعہ بھی الیکشن ہوئے جس کو ہم نے قبول نہیں کیا۔ابھی بھی اس سے کچھ بڑھ کر جو کچھ ہواتو کیسے قبول کریں۔جس اسمبلی پر چھاپ لگ جائے کہ دھاندلی زدہ ہے اس کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔اس کے فیصلوں کی اور قانون سازی کی کیا اہمیت ہوگی۔ہمارے ملک کے ساتھ مذاق ہورہا ہے۔ہم بھی پاکستانی شہری ہیں ہم کسی کے نوکر نہیں۔ہم نے ملک کے ساتھ رہنا ہے ہم نے اس ملک کی اصلاح کے لئے کام کرنا ہے ۔اگر ہم نے اس ملک میں جمہوریت کا ساتھ دیا تو ہم جمہوریت کامقدمہ ہار رہے ہیں۔دنیا میں ہمارے خلاف اور جمہوریت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ پارلیمنٹ اپنی حیثیت کھورہی ہے اس لئے آج ہم نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔جے یو آئی کو ملک کی سیاست سے مائنس کیا جائے گاتو ہم بقا کی جنگ لڑیں گے۔میں کسی ایک حلقے کی بات نہیں کررہا میں نے مجموعی طور پرپورے ملک کے الیکشن کی بات کی ہے۔پی ٹی آئی کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں یہ انہوں نے فیصلہ کرنا ہے۔میں اس ملک میں جمہوریت کی بات کرتا رہاہوں اور کروں گا۔جمہوریت وہ ہونا چاہئے جو حقیقی جمہوریت ہو جس طرح آئین نے کہا ہے یہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہاتھ میں نتیجے پکڑوا کردیتی رہے اور کہے اس کو جمہوریت کہو اس کو میں کبھی جمہوریت نہیں کہوں گا۔تحریک انصاف سے بات چیت کے حوالے سے ہم نے ابھی کچھ نہیں سوچا۔ہم بات چیت کے دروازے بند نہیں کرتے لیکن اس کی افادیت بھی ہونی چاہئے۔شہباز شریف نے مجھے میسج کیا تھا کہ آپ کے بغیر مجلس مکمل نہیں ہورہی ۔میں نے شہباز شریف کو انکار کردیا کہ میری اس مجلس میں جگہ نہیں۔ہمارے حوالے سے بین الاقوامی قوتیں بھی فیصلے کرتی ہیں۔ہم آج بھی سمجھتے کہ امریکا انسانی حقوق کا قاتل ہے۔ہم سوچ رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے لئے سوچے گی خدمات کی قدر کرے گی ۔ ہمارے صوبے میں اتنے ووٹ نہیں جتنے ڈالے گئے۔ عوام کی عدالت میں جائیں گے اور اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے۔