برمنگھم سے ہمارے دوست، قیصرمعروف اپنے مقامی دوستوں کے ساتھ ہمیں ریسیو کرنے کے لیے بارسلونا(Barcelona) کے شہر، جی رونا (Girona) کے ائرپورٹ پہنچ چکے تھے اور ہمارا اگلے دو روز تک اُن کی سنگت میں تاریخی اہمیت کے حامل اور دنیا بھر میں سیّاحت کے حوالے سے جداگانہ شناخت رکھنے والے ملک اسپین کے خُوب صُورت شہر، بارسلونا کی سیر و سیّاحت سے بھرپور لُطف اندوز ہونے کا پروگرام پہلے ہی سے طے تھا۔ جی رونا ائرپورٹ کا شماراسپین کے بین الااقوامی ائرپورٹس میں ہوتا ہے، یہاں سے روزانہ بیسیوں پروازیں اندرونِ ملک سمیت یورپ اور دیگر ممالک کے لیے اُڑان بَھرتی ہیں۔ ائرپورٹ سے باہر قیصر معروف اپنے مقامی دوستوں اصغر کیانی اور عامر کیانی کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔
پُرتپاک خیرمقدم اور علیک سلیک کے بعد ائرپورٹ کی عمارت سے باہر آئے، تو پارکنگ ایریا میں ’’جیپ کمپنی‘‘ کی برانڈ نیو ماڈل کار ہماری منتظر تھی، جو قیصر معروف نے برطانیہ سے بارسلونا روانگی سے قبل ہی دو دن کے لیے بُک کروالی تھی۔ عامر کیانی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ وہ اسپین میں باقاعدہ لائسنس یافتہ ٹیکسی ڈرائیور ہیں اورحکومت سے منظور شدہ گاڑی (ٹیکسی) چلاتے ہیں، جس سے انھیں اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے۔
ائرپورٹ سے روانہ ہوئے تو دوپہر کا وقت ہوچلا تھا، ہم ہوٹل کی جانب گام زن تھے۔ عامر اور اصغر علاقے سے متعلق چیدہ چیدہ باتوں سے آگہی فراہم کررہے تھے۔ پُرفضا مقام سے رہائشی علاقے کی جانب بڑھے، تو بھوک ستانے لگی، ابھی ہم یہ اظہار کرنے ہی والے تھے کہ ’’اللہ کے بندو! ہمیں کچھ کھلا پلادو‘‘ کہ ہمارے کچھ کہنے سے قبل ہی عامر کیانی نے گاڑی ایک ترکش ہوٹل کے سامنے روک دی۔ اورپھر،مالٹے کے جوس اور کیک کے ایک ٹکڑے کے سہارے دن گزارنے والے مسافر کو پیٹ بھر کھانے نے بہت لُطف دیا۔
جی رونا کی یہ بستی ساحلِ سمندر کے کنارے واقع ہے۔ ہم ساحل کے قریب سے گزر رہے تھے اور سامنے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے ساحل پر مقامی مرد و زن مخصوص لباس میں دھوپ اور سمندر کی لہروں سے لُطف اندوز ہورہے تھے۔ ایک سو سے زائد مربع کلو میٹر پر پھیلے جی روناکی کُل آبادی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اُس وقت ہماری گاڑی ساحلِ سمندر کے ساتھ بارسلونا شہر کی طرف رواں دواں تھی اور ہم اطراف کے نظاروں اور بحیرئہ روم سے آتی نمکین ہوائوں سے خُوب لُطف اندوز ہورہے تھے۔ جی روناائرپورٹ سے بارسلونا تک کی یہ شاہ راہ ہمارے ’’مَری ایکسپریس وے‘‘ جیسے مناظرہی لیے ہوئے ہے، البتہ کہیں کہیں آبادی کے اثرات اور چھوٹے چھوٹے شہر بھی دکھائی دیتے ہیں۔
تھوڑی ہی دیر میں ہم بارسلونا کے شمالی حصّے میں پہنچ گئے۔ ساحل کے کنارے واقع ہوٹل پر گاڑی روک کر عامر نے مُسکرا کر مطلع کیا، ’’لیجیے جناب، وہ مقام آگیا، آپ جہاں قیام کریں گے۔‘‘ ہوٹل کی پندرہویں منزل پر ہمارے نام سے کمرا پہلے ہی سے بُک تھا۔ قیصر بھائی اور کیانی برادران کو چوں کہ چند ضروری کام تھے، لہٰذا یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ آج رات اکیلے ہی ہوٹل میں آرام کریں، کل صبح ناشتے پر ہوگی۔
اُن کے جانے کے بعد ہم نے گرم پانی سے غسل کیا، تو دن بھر کی تھکن جیسے اُڑنچھو ہوگئی، تازہ دَم ہونے کے بعد ہوٹل سے نکل کر سانت روک (Sant Roc) کے علاقے میں آگئے۔ یہاں زیادہ تر پاکستانی آباد ہیں، جنھیں یہاں کی شہریت مل چکی ہے اور وہ مختلف کاروبار اور ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ اگرچہ ہمارا ہسپانیہ سے صدیوں پرانا ایک خاص اپنائیت کا رشتہ ہے، تاہم اس علاقے میں دکانوں اور گلیوں کے نام اُردو میں دیکھ کریہ احساس دوچند ہوگیا۔
اسپین کی 8فی صد تجارت برطانیہ اور 5فی صد امریکا کے ساتھ ہے۔ تاہم، زیادہ تر درآمدات کا انحصار یورپی ممالک ہی پر ہے۔ اسپین میں فی کس آمدنی 29799.75ڈالر اور 1200بلین ڈالر جی ڈی پی ہے، جب کہ یہ یورپی یونین کی چوتھی اور دنیا بھر میں 14ویں بڑی معیشت تصوّر کی جاتی ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے دنیا بھر میں 13ویں نمبر پر ہے، جہاں14600سے زیادہ غیرملکی فرمزکے بزنس یونٹس قائم ہیں۔ ایک بھرپور تاریخی وَرثے کے حامل ملک ہونے کے ناتے، یہاں کی سیّاحتی صنعت بھی خوب پَھل پُھول رہی ہے۔ صرف سیّاحتی سرگرمیوں کی مَد میں جی ڈی پی کا11.8فی صد حاصل کیا جارہا ہے۔ اکانومک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق،2019ء میں اسپین سیّاحت کے لحاظ سے 140ممالک میں پہلے نمبر پر تھا۔
یہاں سیّاحت کی غرض سے زیادہ تربرطانیہ، جرمنی اور فرانس کے سیّاح آتے ہیں، جب کہ حکومت نے سیّاحت کی فروغ کے لیے بیش بہا خصوصی اقدامات بھی کر رکھے ہیں۔ تاریخی اہمیت کے حامل مقامات تک پہنچنے کے لیے سڑکیں تعمیرکرنے کے علاوہ سیّاحوں کو ٹرانسپورٹ اور ہوٹلنگ کی بہترین سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ پھرساحلوں کو صاف ستھرا رکھنے کا بھی خاص انتظام نظر آیا، جب کہ سمرریزورٹس میں سیّاحوں کے آرام اور دل چسپی کا تمام تر سامان موجود ہے۔ طلبہ کو سیّاحت کی جانب راغب کرنے کے لیے خصوصی رعایتیں دی جاتی ہیں۔
نیز، ہر سال درجنوں فیسٹیولز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، جن سے لُطف اندوز ہونے کے لیے دنیا بھر کے سیّاح یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ سانت روک پر واقع پاکستانی ہوٹلز پر روایتی پکوان بآسانی مل جاتے ہیں۔ کڑاہی گوشت، قورما، بریانی، تنور کی روٹی سمیت طرح طرح کی سوئیٹ ڈشز، جو ہمارے ملک کی پہچان ہے، سب میسّر ہے۔ ویسے یہاں کے ہوٹلز میں پاکستانی کھانوں کا اپنا ہی ایک لُطف ہے۔ کھانے کے بعد سانت روک کی صاف ستھری کشادہ سڑک پر مٹرگشت کے دوران ہماری بہت سے پاکستانی بھائیوں سے ملاقات ہوئی، جو عرصۂ دراز سے وہیں مقیم ہیں۔ کچھ دیر یوں ہی پیدل چہل قدمی کے بعد ہوٹل پہنچے، تو بستر پر لیٹتے ہی دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر نیند کی وادیوں میں پہنچ گئے۔
پُرسکون نیند کے بعد علی الصباح ہی آنکھ کُھل گئی، سورج ابھی پوری طرح روشن بھی نہیں ہوا تھا، لیکن سوئمنگ پول کے پانی میں جوشیلے تیراکوں کی حرکات ایک سے ہل چل برپا تھی، گورے اپنی صبح کا آغاز محبّت، حرکت اور برکت بھری ان سرگرمیوں سے شروع کرچکے تھے اور ہم سوئمنگ پول کے شیشے کی دیوار کے پاربحیرئہ روم کے ساحل پر اُترتے پرندوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ آخر تیسری دنیا کے باسیوں کو آزادی اور اطمینان و سکون کے ایسے لمحات کب میسّر ہوں گے۔ اپنی سوچوں میں گُم تھے کہ قیصر معروف اور اصغر کیانی کے زوردار ’’السلام علیکم‘‘ نے چونکا دیا۔ اصغرکیانی کی الیکٹرانکس آلات کی شاپ ہوٹل کے قریب ہی فیبرے پوج پر واقع ہے، لہٰذا ناشتے سے قبل ہی وہ ہمیں لینے آگئے تھے۔
ناشتے کے دوران ہی یہاں کی معروف کاروباری شخصیت، ناصربٹ بھی آگئے، جن کی سنگت اور راہ نمائی میں آج ہمیں بارسلونا کے اہم سیّاحتی مقامات کی سیر کرنا تھی۔ بارسلونا شہر سیّاحت کے لحاظ سے اسپین کا ’’کمائو پوت‘‘ ہے اور اس کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے، جو اس کی اہمیت اُجاگر کرتی ہے۔ قدیم و جدید طرزِ تعمیر سے آراستہ، صاف ستھرے شہر کی چمک دمک نے گویا ہمیں اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ کشادہ سڑکیں، منظّم ٹریفک اور سب سے بڑھ کر سانسوں میں زندگی بَھر دینے والی خوش گوار ہوا اور پھر تاحدِ نظرنیلا آسمان سایہ فگن تھا۔ گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے ناصر بٹ ہمیں شہر سے متعلق آگاہی دے رہے تھے کہ ’’بارسلونا شہر کا کُل رقبہ 101.4مربع کلومیٹر اور آبادی 5687000 کے لگ بھگ ہے۔ یہاں ہوائی اڈّے، بندرگاہ اور ریلوے کا منظّم نظام موجود ہے۔
شہر کی سڑکوں پر بسیں دوڑتی پھرتی ہیں، جب کہ نجی ٹرانسپورٹ کے طور پر ٹیکسیاں بھی دست یاب ہیں۔ شہر کی ثقافتی بحالی کا دَور 19ویں صدی کے وسط میں ٹیکسٹائل کی صنعت کی ترقی سے شروع ہوا اور 20ویں صدی میں پورے شہرمیں وسیع پیمانے پر شہری تجدید کا آغاز ہوگیا۔ اس عرصے میں حاصل ہونے والی آزادیوں کو 1936ء میں خانہ جنگی اور اس کے بعد کی آمریت کے دوران سختی سے روک دیا گیا تھا۔ 1978ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد شہریوں نے اپنی معاشی طاقت دوبارہ حاصل کی اور ’’کاتالان‘‘ (Katalan) زبان بحال ہوئی، جب کہ 1992ء کے اولمپک کھیلوں کی میزبانی نے بھی بارسلونا کو نئی شناخت دی۔‘‘ بہرحال، آج بھی دنیا بَھر کے سیّاحوں کے لیے یہاں کشش کا بہت سامان موجود ہے۔
بارسلونا کے وسط میں ایک وسیع اسکوائر پر انیسویں صدی کی تعمیرات نظر آتی ہیں، جہاں شہر کی بہت سی اہم سڑکیں اور ایونیوز آکر ملتے ہیں۔ ’’50 ہزار مربع گز سے زائد علاقے پر مشتمل کاتا لونیا اسکوائر (Plaça de Catalunya) خاص طور پر فوّاروں اور مجسّموں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ہسپانوی طرزِ تعمیر کی بلند و بالا عمارتیں، کشادہ سڑکیں اور وسیع شاپنگ مالز بھی اس شہر کو انفرادیت بخشتے ہیں۔ شہر مختلف چھوٹے چھوٹے اضلاع میں تقسیم ہے اور ہر سیّاحتی و تفریحی مقام کے ساتھ ضلعے کا نام بھی درج ہوتا ہے۔‘‘ناصر بٹ ہمیں تفصیل سے شہر سے متعلق آگاہ کررہے تھے ،اسی دوران سامنے ایک بلند و بالا عمارت نظر آئی تو بتایا، ’’لیجیے جناب، ہم ’’نیشنل میوزیم آف آرٹس، بارسلونا‘‘ پہنچ گئے۔‘‘
سامنے ایک دیو ہیکل، پُرشکوہ عمارت اِستادہ تھی، جوتعمیر کے جمال اور ریاستی قوت کے جلال کا پیکر معلوم ہوئی۔ یہاں کا ’’نیشنل آرٹ میوزیم آف کاتالونیا‘‘ (National Art Museum of Catalonia) کاتالان میں واقع ہے۔ یاد رہے ،کاتالونیا اسپین کا ایک خود مختار علاقہ ہے اوربارسلونا اس کا دارالحکومت۔ پہاڑی پر واقع رومی طرز کے اس میوزیم کو1990ء میں قومی عجائب گھر قرار دیا گیا۔ یہ اسپین کا سب سے بڑا عجائب گھرہے، جسے دیکھنے کے لیے پورا دن بھی ناکافی تھا، لہٰذا اس کے چیدہ چیدہ حصّے دیکھنے کے بعد ہم سگراڈا فیمیلیا(Sagrada Familia) کی طرف چلے گئے۔
سگراڈا فیمیلیا، دنیا کا سب سے بڑا نامکمل کیتھولک چرچ ہے، جسے نومبر 2010ء کو ایک مقدّس عمارت قرار دیا گیا۔ سگراڈا فیمیلیا کی تعمیر کا انحصار مکمل طور پر نجی عطیات پر تھا، اس لیے کام آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ پھر ہسپانوی خانہ جنگی کی وجہ سے اس کی تعمیر میں خلل پڑا۔2010ء تک چرچ کا آدھا کام مکمل ہوچکا تھا، تاہم کچھ چیلنجز اب بھی باقی ہیں توقع کی جارہی ہے کہ یہ عمارت 2026ء تک مکمل ہوجائے گی،جب کہ اس کے کچھ حصّے غالباً 2040 ء تک ہی مکمل ہوسکیں گے۔
ہماری اگلی منزل، بارسلونا کی ایک بلند ترین پہاڑی پر واقع چرچ ’’تبی دابو‘‘(Tibidabo)اور اس سے متصل تفریحی پارکس تھی۔ تقریباً 520 میٹر بلندی پر واقع تبی دابو، کولسیرولا (Collserola) پہاڑی سلسلے کا سب سے اونچا پہاڑ ہے اور اپنے دل کش نظاروں کی بدولت اس قابل ہے کہ ایک پورا دن اس کی سیر کی جائے۔ تبی دابو کے معنی ہیں ’’مَیں تمہیں یہ سب دوں گا‘‘ (I will give to you)۔ کہا جاتا ہے یہ لفظ بائبل میں درج اس واقعے سے اخذ کیا گیا ہے، جس میں شیطان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آزمائش میں ڈالنا چاہتا تھا۔ تبی دابوپر کئی پُرکشش تفریحی مقامات اور خُوب صُورت پارکس تعمیر کیے گئے ہیں۔ قریب ہی سگراڈا کوریزن( Sagrada Corazn )چرچ بھی موجود ہے۔
اس کے علاوہ اسی پہاڑی پر ’’Torre de Conserolla‘‘ نامی منفرد ڈیزائن کا ٹاور ہے، جس کی اونچائی 268میٹر ہے۔ اس ٹاور کو 1992ء میں اولمپک گیمز کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہاں سے اولمپک اسٹیڈیم کا بھرپورنظارہ کیا جا سکتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پرمیدان کے ایک طرف بلند و بالا چرچ کی عمارت کے سامنے بارسلونا شہر کا فضائی منظر دیکھنے کے لیے دُوربین نصب ہے۔ جہاں سے بارسلونا شہر کا دُوردُور تک نظارہ ایک یادگار تجربہ رہا۔ اس کے بعد ہماری اگلی منزل ’’رمبلااسٹریٹ‘‘ تھی، جسے ’’پریشان رمبلا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ موسیقی، پھولوں، لائیو شوز، مائمز (Mimes) اور پُررونق چھتوں کا ذکر ہو، تو آنکھیں بند کرکے کہا جا سکتا ہے کہ بارسلونا کی رمبلااسٹریٹ کی بات ہورہی ہے۔
یہ بارسلونا کی سب سے مشہور گلی یا سڑک اور شہر کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ چھوٹی سی سڑک محض 1.3کلومیٹر طویل ہے اور یہ پیلکا ڈی کاتالونیا (Plaça de Catalunya) یعنی کاتالونیا اسکوائر کو شہر کی پُرانی بندرگاہ سے ملاتی ہے۔ یہاں اُن آرٹسٹس کی بھرمار ہے، جو جابہ جا زندہ مجسّموں کی طرح پوز دیتے نظر آتے ہیں۔ متحرک زندگی کو ظاہر کرنے والی یہ شاہ راہ سیّاحوں، مقامی لوگوں سے ہر وقت بَھری رہتی ہے۔ سڑک کے اطراف بے شمار ریستوران واقع ہیں، البتہ اشیاء کی قیمتیں معمول سے کچھ زیادہ ہیں، پھر بھی کم و بیش چوبیس گھنٹے لوگوں کا جمگھٹا نظر آتا ہے۔
بارسلونا آنے والے سیّاح رمبلا کا چکر ضرور لگاتے ہیں کہ رمبلا کے کئی حصّے ہیں اور کئی چھوٹی گلیوں میں منقسم ہونے کی وجہ سے اِسے جمع کے صیغے میں ’’لاس رمبلاس‘‘ (Las Ramblas)بھی کہا جاتا ہے۔ بارسلونا میں رہنے والے پاکستانیوں اور دوسرے ایشیائی باشندوں نے اس اسٹریٹ کو ’’پریشان رمبلا‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ دراصل، چندسال پہلے کووِڈ کے دنوں میں بے روزگار اور بے کارہونے والے ایشیائی باشندے یہاں اکٹھے ہوجاتے تھے اور ایک دوسرے کوبے روزگاری، بیماری اور دوسرے مسائل سے متعلق اپنی اپنی داستانِ غم سناتے تھے، تو اسی وجہ سے اس علاقے کا نام ’’پریشان رملا‘‘ پڑ گیا۔ یہیں کانسی کا بنا ہوابلّی کا بہت بڑا مجسّمہ نصب ہے، جو معروف مجسّمہ ساز، فرنینڈو بوٹیرو نے تخلیق کیا تھا اور یہ مجسّمہ بھی اب بارسلونا کی علامت بن چکا ہے۔
یہاں ہم نے ایک مراکشی ہوٹل سے برگر نما مخصوص پکوان سے ڈنر کیا۔ اس برگر میں چکن، بیف، چٹنیوں کے ساتھ چپس بھی شامل کی جاتی ہے، جو اس کے لطف کو دوبالا کر دیتی ہے۔یہاں ہماری آخری تفریح مونٹیجک فائونٹین (Montjuic Fountain)جادوئی فوّارے کا نظارہ تھی، مگر چوں کہ اُس وقت ان فوّاروں کا ڈانس شو نہیں ہو رہا تھا، لہٰذا ناصر بٹ کی تجویز پرہم پہلے پہاڑ کے بلند ترین مقام پر پہنچ گئے، جہاں ایک چھوٹا سا قلعہ اور پہاڑی کے کناروں پر صدیوں پرانی تو پیں نصب تھیں اور جن کے رُخ بحیرئہ روم کی طرف تھے۔
تاریکی میں پیدل چلتے ہوئے اس تنگ مقام تک پہنچے، تو دُور سمندر میں کھڑے بحری جہازوں کی روشنیاںصاف دکھائی دے رہی تھیں۔ ماحول پر گہراسکوت تھا۔ بحیرئہ روم سے آتی ہوائیں ہمارے سینوں سے ٹکرانے لگیں، تودسمبر کی یخ بستہ ہوائوں کا احساس جاگ اٹھا۔رات گہری ہوتی جارہی تھی، تھکن بھی دوچند ہوگئی تھی، مزید کہیں جانے کی ہمّت بھی نہیں تھی، لہٰذا ہوٹل کا رُخ کیا۔
ہوٹل کے آرام دہ کمرے میں پُرسکون نیند کے بعد علی الصباح بے دار ہوئے تو شدید بھوک ستانے لگی۔ لابی میں پُرتکلف ناشتے کے بعد استقبالیہ پر پہنچے، تو گیارہ بج رہے تھے۔ یہاں سے ہمیں بارسلونا ائرپورٹ جانا تھا اور اس وقت ہم قیصر معروف بھائی کے منتظر تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد قیصر، ناصر بٹ کے ساتھ آگئے، تو ہم نے گاڑی کمپنی کے حوالے کی اور جوزف ٹرا ڈیلاس ائرپورٹ کے ٹرمینل کی جانب روانہ ہوگئے۔ بارسلونا کے مرکز سے 15کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع یہ بین الاقوامی ہوئی اڈا اسپین کا سب سے بڑا، جب کہ یورپ کا چھٹا مصروف ترین ائرپورٹ ہے۔
ائرپورٹ پر مسافروں کا ہجوم تھا،ہم راستہ بناتے اس وسیع وعریض ائرپورٹ کے مطلوبہ ٹرمینل تک پہنچ گئے۔ قیصر کو برمنگھم جانا تھا اور حُسنِ اتفاق ہم دونوں کو فلائٹ کے لیے پہلی منزل سے سوار ہونا تھا۔ ہم نے اپنے میزبانوں کی مہمان نوازی کا بے حد شکریہ ادا کیا اور پھر وہ بائیں طرف اور ہم دائیں طرف چل پڑے۔ چند قدم کی مسافت پر روم جانے والے مسافر قطار بنائے جہاز میں سوار ہو رہے تھے، تو ہم بھی اُن میں شامل ہوگئے، بلکہ اس قطار میں ہم آخری ہی مسافر تھے۔ (جاری ہے)