• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں حکومت ہونا ن لیگ کو وفاق میں تقویت دیگا، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق شیخ کے سوال کیا موجودہ اتحاد معاشی اور سیاسی استحکام کے لئے موثر ثابت ہوسکتا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہاکہ پنجاب میں حکومت ہونا ن لیگ کو وفاق میں بہت تقویت دے گا ،اچھی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے یہ نہیں کہا کہ ہم سڑکوں پر نکلیں گے اور اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے.

نئے الیکشن کے خوف یا سسٹم ڈی ریل ہونے کی وجہ سے یہ مجبور ہوئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ حکومت بنائیں۔پروگرام میں تجزیہ کار شہزاد اقبال،سلیم صافی ، سہیل وڑائچ اور ریما عمر نے بھی اظہار خیال کیا۔ 

تجزیہ کارشہزاد اقبال نے کہا کہ تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔انہوں نے کسی بھی سیاسی جماعت سے بات چیت کرنے کو مسترد کردیا۔پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد بن سکتا تھا اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔

اس کے بعد اگر کوئی حکومت کی شکل سامنے آسکتی تھی تو وہ یہی تھی کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہوتے۔پیپلز پارٹی نے فرق یہ رکھا ہے کہ وہ نمبرز میں تو سپورٹ کررہے ہیں ۔

 پارلیمنٹ میں سپورٹ کریں گے لیکن کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔پی ٹی آئی جو بات کرتی ہے کہ ہماری سیٹیں170,180ہیں ہم حکومت بنائیں وہ پریکٹیکل نہیں ہے۔پی ٹی آئی کی جو محاذ آرائی تھی اسی غصے کا ووٹ انہیں پڑا ہے ۔اچھی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے یہ نہیں کہا کہ ہم سڑکوں پر نکلیں گے اور اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے۔

اسمبلی جارہے ہیں وہاں اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو کریں ۔تجزیہ کارسلیم صافی نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو زبردستی تو ساتھ نہیں بٹھایا گیا ہے مجبوری نے بٹھا دیا ہے۔ تحریک انصاف نے تو دروازہ بند کرلیا تھا ۔ نئے الیکشن کے خوف کی وجہ سے یا سسٹم ڈی ریل ہونے کی وجہ یہ مجبو رہوں گے کہ ایک دوسرے کے ساتھ حکومت بنائیں۔جس مجبوری نے انہیں اکٹھا کیا ہے وہی مجبوری انہیں آگے بھی چلا کے رکھے گی۔

ماضی کی نسبت زیادہ بہترتقسیم کار ہوا ہے کسی نہ کسی حد تک ابھی الگ الگ پارٹی کی کارکردگی کو جانچا جائے گا۔منفی طور پر دیکھیں تو یہ کمزور حکومت ہے ۔ایک لحاظ سے یہ قومی حکومت کا تاثر بھی دیتی ہے سب کے اسٹیک ہیں۔ یہ لوگ کرپشن میں مقابلہ کرنے کے بجائے کارکردگی میں مقابلہ کریں۔ نا اہلی میں مقابلہ کرنے کے بجائے اہلیت میں مقابل کرلیں۔یہ حکومت ماضی کی حکومت کے مقابلے میں مستحکم ثابت ہوسکتی ہے ۔

اگر ماضی کی طرح عہدوں کی بندر بانٹ میں مقابلہ رہا کرپشن میں مقابلہ رہاتو پھر کوئی بھی حکومت ہو وہ کمزور ہی ہوگی۔ہر کسی کو پتہ ہے کہ جھگڑا اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے مابین ہے ۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ سے ان کی دوستی بھی تھی اور سرپرستی بھی کی جارہی تھی ۔

پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کی وجہ سے جارحانہ رویہ اپنایا ہوا تھا۔ تجزیہ کارسہیل وڑائچ نے کہا کہ ن لیگ کا ووٹر نواز شریف کو ہی اپنا لیڈر سمجھتا ہے ۔نواز شریف اس وقت سب سے زیادہ تجربہ کار ہیں تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔

عالمی لیڈر شپ انہیں جانتی ہے بہتر ہوتا کہ کمزور حکومت بھی وہ لیتے اور اس کو چلا کر دکھاتے۔ توقع تو یہ تھی کہ 1990 ء میں انہوں نے معیشت کو آزاد کیا تھا۔ جب بھی وہ آئے کبھی موٹر وے بنائی کبھی بجلی کے کارخانے لگائے ۔اس دفعہ معیشت کو بہتر کرنے کی توجہ دیتے اس کی چیزیں بہتر کرتے۔

شہباز شریف منیجر بہت اچھے ہیں ان کی گورننس بہت اچھی ہے لیکن ویژن وہ اپنے بھائی سے لیتے ہیں۔ ایک بندہ جواقتدار میں شامل ہی نہیں ہے اس کا ویژن کس حد تک عملدرآمدہوگا۔

نواز شریف ہوتے تو مقتدرہ کے ساتھ معاملات انہیں اسپیس دینا پڑتی ۔ ہوسکتا ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بھی کچھ اثرات مرتب ہوتے۔انڈیا ، چین اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ زیادہ بہتر روابط ہوتے۔نواز شریف نہیں ہوں گے تو معمول کے مطابق معاملات چلیں گے۔

ان کے اس فیصلے سے لگتا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی سیاسی قوت دوبارہ بنانا چاہتے ہوں۔پاکستانی سیاسی جماعتوں کو خطرہ سیاسی جماعتوں سے نہیں ہوتاخطرہ پیچھے مقتدرہ سے ہوتا ہے ۔اگر ان کی کسی ایک جماعت کے مقتدرہ سے اختلافات ہوگئے تویہ حکومت گر جائے گی اور نیا سیٹ اپ آئے گا۔

تجزیہ کارریما عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور قیادت کہتی ہے کہ وہ شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتے ان کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔بہت اچھا بدلہ ہوتا اگر پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بناتی ۔اپنا وزیراعظم منتخب کرواتے وہ دکھاتے کہ ہمیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے ۔ ہم وزارت عظمیٰ کے حقدار ہیں ن لیگ نہیں ہے وہ چوری کے ووٹ سے آئی ہے۔

پی ٹی آئی کے قانونی معاملات ساتھ ساتھ چل سکتے تھے انہوں نے حکومت سازی پر کیوں توجہ نہیں دی۔یہ حکومت پی ڈی ایم ٹو اس لئے نہیں ہے کہ اس میں مولانا فضل الرحمٰن شامل نہیں ہیں۔اب صدر مملکت آصف زرداری ہوں گے تو حکومت کو پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔پنجاب میں حکومت ہونا ن لیگ کو وفاق میں بہت تقویت دے گا ۔

اہم خبریں سے مزید