کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ تقسیم شدہ مینڈیٹ طاقتوں کو سوٹ کرتا ہے لیکن یہ پاکستان کے لئے بہتر نہیں ہے،پختونخوا میں مظلومیت کی وجہ سے تحریک انصاف کو ووٹ ملا ہے،جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ داغدار الیکشن تھا،پاکستان میں گزشتہ 76 سال سے جو صورتحال ہے وہ عالمی اسٹبلشمنٹ کے اثرات سے آزاد نہیں ہے اور عالمی اسٹبلشمنٹ اتنی طاقتور ہے کہ وہ ناصرف پاکستان بلکہ کسی بھی اسلامی ملک میں ایسی قیادت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان کے مفادات کی مخالف ہو،دوسری بات پاکستان میں اب بھی اسٹبلشمنٹ اور انہی خاندانوں کا غیر اعلان شدہ اتحاد ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل ہے جن لوگوں نے انگریز کا ساتھ دیا تھا آج بھی وہی خاندان ہمارے ملک پر مسلط ہیں۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ ہم نے بہت محنت کی انقلابی منشور دیا اور پہلی بار 750 حلقوں پر امیدوارن کھڑے کیے لیکن الیکشن کے نتائج جب مکمل ہوا اور مجھے اپنی محنت کا پھل نظر نہیں آیا تو پھر میں نے یہی سوچا کہ شاید میری وجہ سے میری جماعت کو وہ نتیجہ نہیں ملا جو ملنا چاہیے تھامیں نے تمام تر ذمہ داری خود لی اور اسی وجہ سے میں نے اپنی جماعت کو استعفیٰ دے دیا۔بعد میں بہت سی چیزیں سامنے آئیں سرکاری افسران نے بھی اعتراف کیا کہ ہم نے دھاندلی کی ہے پہلے مرحلے میں ایسا لگا کہ شاید یہی سب کچھ ہے ۔ میں جو کچھ کرسکتا تھا اس کی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ نہیں نکلا۔آج بھی ہم الیکشن کمیشن کی عدالت میں موجود ہیں کہ جن حلقوں میں ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔ میاں اسلم کے حلقے کی بات کریں تو فارم میں ایک ہزار نو سو ووٹ لکھے گئے جب شور مچایا گیا تو کچھ اضافہ ہوا پھر شور مچایا گیا تو اور اضافہ ہوا ہمارا کیس یہی ہے کہ جن حلقوں پر ہمیں لوگوں نے ووٹ دیا ہے وہ ہمیں دیا جائے۔ کراچی کے تقریباً چھ ایسے حلقے ہیں جہاں جماعت اسلامی سرفہرست ہے اور ایم کیو ایم کا چوتھا نمبر ہے لیکن ان کے اعلانات کر دیئے گئے جبکہ فارم 45 ہماری گواہی دے رہے ہیں نتیجہ ایم کیو ایم کے حق میں نکلا ہے۔ہم ہر قیمت پر اپنا حق لے کر رہیں گے۔ پختونخوا اور دوسرے علاقوں میں جتنا پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کو فائدہ پہنچایا وہ خود اپنے آپ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچا سکے اور جو سزائوں کے اعلانات کیے گئے دس دنوں میں اس کا سب سے زیادہ اثر پختونخوا میں ہوا ہے یہ ایک حقیقت ہے پختونخوا میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔منصورہ میں میری ملاقات ہوئی پی ٹی آئی کے لوگوں سے اس میں ایک امیدوار جو ہارا ہوا تھا اس نے کہا ہم پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے تھے لیکن جیسے ہی سزاؤں کے اعلانات ہوئے اس سے ہم دوبارہ ایکٹو ہوگئے۔پختونخوا میں مظلومیت کی وجہ سے تحریک انصاف کو ووٹ ملا ہے۔لوگوں کے تحفظات ہیں مینجمنٹ پر انتظامیہ پر الیکشن کمیشن کے عملے پر وہاں دس سال انہوں نے حکومت کی ہے اور یقیناً انتظامیہ زیر اثر تو رہتی ہے جس آدمی نے مجھ سے الیکشن جیتا اس کو مبارکباد دی میں عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں اٹھارہ کی بنسبت بہت زیادہ ووٹ مجھے ملے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ جو ہم نے دیکھی ہے پہلے بھی طے شدہ الیکشن ہوتے رہے ہیں اٹھارہ میں بھی ایک صوبہ ایک کو دیا گیا دوسرا دوسرے کے حوالے کیا گیا، تقسیم شدہ مینڈیٹ ان طاقتوں کو سوٹ کرتا ہے لیکن یہ پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہے۔ پختونخوا کے بارے میں جو کہا اس پر قائم ہوں لیکن مجموعی طور پر یہ ایک داغدار الیکشن تھا اور اس بات کو ساری دنیا نے کہا ہے کہ جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ داغدار الیکشن تھا۔ 2018 کے مقابلے میں بھی یہ الیکشن زیادہ خراب تھا۔الیکشن کمیشن کم سے کم یہ اصول زیادہ اپنائے جن حلقوں کے فارم 45 موجود ہیں اور نتیجہ غلط ہے وہاں فارم 45 کے مطابق اعلان کر دیئے جائیں تاکہ لوگوں کی شکایاتیں ختم ہوجائیں گے۔ دوبارہ الیکشن کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن پچاس ارب روپے لگائے گئے کروڑوں لوگ قطاروں میں کھڑے ہوئے ان اداروں سے متعلق سوچنے کی ضرورت ہے انہوں نے قوم کے ساتھ ظلم کیوں کیا۔ سراج الحق نے مزید کہا کہ ہم جو انقلابی ایجنڈا رکھتے ہیں وہ ہم کسی کے ساتھ مل کر نہیں عمل کرسکتے اس لیے ہم نے الیکشن اکیلے ہی لڑااور ہمارے ووٹ میں اضافہ بھی ہوا ہے اور اسی طرح اگر ہم چلیں گے تو انشاء اللہ ہماری باری ضروری آئے گی۔ تحریک انصاف کو ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی وہ آئے اور انہوں نے پہلے مرحلے میں بات کی کہ پورے ملک کی سطح پر آپ کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتے ہیں پھر ان کا موقف تھا کہ مرکز میں کسی اور کے ساتھ چاہتے ہیں ۔ پھر جو معلومات لی گئی اس کے مطابق یہ تھا کہ تمام تر فیصلے ایک فرد واحد کریں گے نام آپ کا ہوگا نشان آپ کا ہوگا فیصلے ہم خود کریں گے جب آپ کا نام ہو اور آپ فیصلوں میں شریک نہ ہوں تو جماعت کے لیے یہ ہضم کرنا مشکل تھا۔ وفد سے ہماری تفصیلی بات ہوئی اور اتفاق ہوا کہ جس ایجنڈے پر ہم متفق ہیں ایک پلیٹ فارم نہ ہوتے ہوئے بھی ہم اس پر بات اکٹھے کریں گے۔77 سے لے کر ایک طویل عرصہ ہم اتحادی سیاست میں رہے ہیں اس کی وجہ سے ہمارا اپنا نشان جھنڈا اور منشور غائب ہوگیا تھا ہم اب اپنے پیروں پر کھڑے ہو رہے ہیں اچھے ووٹ ملے ہیں اسی کو مزید مضبوط بنائیں گے۔جماعت اسلامی کا مقصد صرف الیکشن نہیں ہے ہماری دینی اور نظریاتی جماعت ہے ہم خدمت بھی کرتے ہیں تربیت بھی کرتے ہیں اور بین الاقوامی ایجنڈا بھی ہے ایک پیغمبری مشن کا کام صرف یہ نہیں تھا کہ الیکشن میں کامیابی ہو ۔ اس تنظیم کے ساتھ ہم نے بارہا کامیابی حاصل کی ہے کراچی میں دیر، بونیر سے ہمارے لوگ منتخب ہوئے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ 76سال سے جو صورتحال ہے وہ عالمی اسٹبلشمنٹ کے اثرات سے آزاد نہیں ہے اور عالمی اسٹبلشمنٹ اتنی طاقتور ہے کہ وہ ناصرف پاکستان بلکہ کسی بھی اسلامی ملک میں ایسی قیادت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان کے مفادات کے مخالف ہو۔دوسری بات پاکستان میں اب بھی اسٹبلشمنٹ اور انہی خاندانوں کا غیر اعلان شدہ اتحاد ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل ہے جن لوگوں نے انگریز کا ساتھ دیا تھا آج بھی وہی خاندان ہمارے ملک پر مسلط ہیں۔ ابھی جو حکومت بنی وہ انہیں دو خاندانووں کی ہے جو تیس چالیس سال سے ملک پر مسلط ہے۔ اگر آج بھی پاکستان میں شفاف الیکشن ہوجائیں تو جماعت اسلامی ایک موثر طاقت کے طو رپر ابھرے گی۔آئی جے آئی جب بنی تھی میں کالج میں تھا اور میں اسلامی جمعیت طلبا میں تھا جبکہ ایم ایم اے کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ یہ دینی جماعتوں نے خود بنائی تھی ان تجربات کے بعد ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ اپنے نشان اپنے جھنڈے کے ساتھ آگے چلیں اور یہ سفر جاری رکھیں گے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر جماعت اسلامی فعال رہی ہے ہم نے عافیہ صدیقی کا بھی ایشو اٹھایا یہ سب ہمارے ملک کا مسئلہ ہے یہ تین ایشوز ایسے ہیں جو بین الاقوامی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی اور پاکستانی ایشو ہیں۔ سب سے زیادہ مہنگائی کے خلاف ہم نے آواز اٹھائی ہے۔غزہ میں جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے باضمیر انسان خاموش نہیں رہ سکتا یہ افسوس کی بات ہے کہ فلسطینی شہداء کی تعداد تیس ہزار ہونے کو آئی ہے اور پاکستان نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور خالی آواز اٹھانے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا عملی تعاون کی ضرورت ہے عالم اسلام کے ممالک کو فوج بھیجنی چاہیے۔جنگ کرنے سے پہلے بہت سے اقدامات ہیں جو فلسطینی بھی ہم سے چاہتے ہیں اور ممکن ہے جنگ کی ضرورت ہی نہ پڑے اگر وہ اقدامات کر لیے جائیں یہ بہت اہم مسئلہ ہے پاکستان کو اس کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ ایران اور سعودی عرب کو اپنی لڑائیاں ختم کرنی چاہئیں اور مل کر فلسطین کا ساتھ دینا چاہیے۔ہمارے پاس بارہ سو کی تعداد میں پی ایچ ڈی اسکالرز موجود ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں مہارت رکھتے ہیں اور اس قوم کو بھنو ر سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔