• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رومن ایمپائر کے آثار ... قطر کے اہم سیاحتی مقامات ( پانچویں اور آخری قسط)

یونان، پیرس اور بارسلونا کے بعد ہماری اگلی منزل، تہذیب و تمدن کا شہر، روم تھی، جو اٹلی کا دارالحکومت ہے۔ اٹلی کو ’’مسیحیت کا گڑھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِسی شہر میں ویٹی کن سٹی کے نام سے ایک خود مختار ریاست بھی موجود ہے، جو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے چھوٹی خود مختار ریاست کہلاتی ہے، جہاں ریاست کے سربراہ، پاپائے روم کی رہائش گاہ بھی ہے۔ ہم روم کےائرپورٹ، ’’فیومیسینو انٹرنیشنل ائرپورٹ لیونارڈو دا ونشی‘‘ پر اُترے، تواس وقت شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔16مربع کلومیٹر رقبے پر محیط اٹلی کا یہ ائرپورٹ، یورپ کا دسواں اور دنیا کا 49واں مصروف ترین ائرپورٹ ہے۔

2022ءمیں اس نے 40ملین سے زیادہ مسافروں کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کرکے ’’بہترین ائرپورٹ کا ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔ یہاں بھی ہمیں وہ تمام جدید سہولتیں نظر آئیں، جو اس سے پہلے ایتھنز(Athens)‘ پیرس(Paris) اور بارسلونا (Barcelona)کے ائرپورٹس پر دیکھ چکے تھے۔رن وے سے ائرپورٹ میں داخل ہوئے، تو مسافروں کے استقبال کے لیے پولیس کے جوان، کتّوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ ہمارے بیگ میں کتّوں کے سونگھنے اور پولیس کے گھورنے کاکوئی سامان نہیں تھا، لہٰذا ان کے قریب سے بخیریت گزرکر باہر آگئے۔

اٹلی، یورپ کا ایک اہم اور بہت ترقی یافتہ ملک ہے، اس کا دوسرا نام اطالیہ ہے۔ یہ ملک اپنی منفرد وقدیم تاریخ، مختلف نوع کے علوم، فنونِ لطیفہ، فنِ تعمیر، مصوری، فیشن اور مجسّمہ سازی کے لیے بھی دنیا بھرمیں مشہور ہے۔یہاں کے بڑے تہذیبی، تجارتی اور ثقافتی مراکز فلورنس(Florence)، پیسا(Pesaro) اور روم(Rome) ہیں۔یورپ کےدیگر ممالک کی طرح اٹلی کی تاریخ بھی دل چسپ واقعات، جنگ و جدل، داخلی خلفشاراور ان تمام عوامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات پر مبنی نہایت طویل اور قدیم ہے۔800ء قبل مسیح سے بھی پہلے ایتھرواسکنز (Etruscans) مشرق سے یہاں آئے تھے، جنھوں نے مقامی آبادی کو غلام بنا کر ایک بہت بڑی سلطنت قائم کی، جو خاصی خوش حال تھی۔یہ تائی باہ( Tiber) اورآرنو( Arno) دریاؤں کے درمیانی علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے۔ 

پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان نے جنوبی اٹلی اور سسلی (Sicily)میں اپنی نوآبادیاں قائم کر لی تھیں۔پانچویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی تک کا زمانہ اٹلی میں روم اور رومن سلطنت کی ترقی کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہی زمانہ تھا، جب جرمنی کے مختلف قبائل نے اٹلی کے علاقوں پر حملے شروع کر دیئے تھے، جس کے نتیجے میں 476ء میں مغرب کے آخری رومن شہنشاہ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ بعدازں، اٹلی میں رومن سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور خود رومن ایمپائر زوال کا شکار ہوگئی۔ آٹھویں، نویں اور دسویں صدی عیسوی میں شمال سے اٹلی پر کئی حملے ہوئے اور اس علاقے میں ریاستیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ 

961ء میں جرمن بادشاہ آٹو (Otto) نے اٹلی پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا، لیکن اس کے باوجود یہاں انتشار ختم نہ ہوسکا۔ کئی سو سال تک اٹلی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا رہا اور آپس میں ان ریاستوں میں شدید جنگیں ہوتی رہیں۔ 1494ء سے 1559ء تک اٹلی، فرانس اوراسپین کے زیرِ تسلط رہا۔ فرانس میں انقلاب برپا ہوا تو اٹلی میں بھی سیاسی ہلچل پیدا ہوگئی۔ 1911-12ء میں ترکی سے جنگ کے بعد اٹلی نے لیبیا پر قبضہ کرلیا۔ 1935ء میں مسولینی نے وہاں سخت فوجی راج قائم کردیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد یکم جنوری 1946ء کو اٹلی میں ایک نیا جمہوری آئین مرتّب کیا گیا اور جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ اٹلی کا مغربی ساحل بحیرہ روم، جب کہ مشرقی ساحل بحیرئہ ایڈریاٹک (Adriatic Sea) کی طرف ہے۔ اس کی شمالی سرحد فرانس، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور سلووینیا سے ملتی ہے۔ بحیرئہ روم میں واقع کچھ جزیرے بھی اٹلی کی ملکیت ہیں۔ یونان، فرانس، اسپین اور یورپ کے دیگر ممالک کی طرح اٹلی میں بھی سیّاحت خاصی عروج پر ہے اور یہاں کے بہت سے تاریخی مقامات دیکھنے کے قابل ہیں۔ پورے اٹلی میں وسیع ٹرین نیٹ ورک موجود ہے اور کافی سستا بھی ہے۔

ہمارے عزیز دوست، علی شیر نے اپنے کزن، ارسلان کو ہمیں ائرپورٹ سے ریسیو کرنے کے علاوہ شہر کی سیر کروانے اور واپس ائرپورٹ تک چھوڑنے کی ذمّے داری سونپ رکھی تھی۔ لابی میں ارسلان اپنے دوستوں کے ساتھ منتظر تھا۔ روم میں ہمارا قیام محض دو روز کا تھا اور ہماری عارضی رہائش کے لیے ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ’’ہاسٹل فرینڈشپ پیلس‘‘ میں کمرا پہلے ہی سے بُک تھا۔ گاڑی مرکزی شاہ راہ پر پہنچی، تو رومن ایمپائر کے اثرات دکھائی دینے لگے۔ صدیوں پرانی عمارتوں کے کچھ حصّے اس تاریخی شہر کے گم گشتہ ماضی کی داستاں سناتے نظر آرہے تھے۔ ہاسٹل پہنچتے پہنچتے شام کےسائے گہرے ہونے لگے، لہٰذا ’’وقت کم اور مقابلہ سخت‘‘ کے مصداق، کمرے میں سامان وغیرہ رکھنے کے بعد فوری طور پر شہر کی تہذیب و ثقافت کا مشاہدہ کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ 

ہمارے پروگرام میں سب سے پہلے قلعہ کولوزیئم (Colosseum) اور اس سے متصل دیگر تاریخی عمارتوں کی سیرشامل تھی۔ کولوزیئم پہنچتے ہی بارش شروع ہوگئی۔ بارش کے شفاف پانی سے وسیع و عریض عمارت اور اُس کے اطراف کی سڑکیں دُھلی دُھلی نظر آنے لگیں۔ ہمارے میزبانوں نے گاڑی پارک کی اور ہم نے قریب ہی ایک سائبان کے نیچے پناہ لے لی۔ کچھ دیر بعد بارش تھمی، تو آگے بڑھے۔ کولوزیئم آف روم (Colosseum of Rome) شہر کے وسط میں تعمیر کردہ ایک بیضوی شکل کی قدیم عمارت ہے، جہاں ماضی بعید میں اہلِ روم تفریحِ طبع کے لیے اکٹّھے ہوتے تھے۔ رومن ایمپائر کے اُس دَور میں نیزہ بازی، شمشیر زنی اور مختلف قسم کے مناظروں کے علاوہ اس مقام پرانسانوں اور جنگلی درندوں کے مابین ایک خوف ناک اور وحشت ناک کھیل بھی کھیلا جاتا تھا۔ 

انسانوں کو درندوں سے لڑوانے کے اس کھیل میں جب تک کسی ایک فریق کی موت واقع نہ ہوجاتی، کھیل جاری رہتا۔ اس دوران یا تو انسان، درندے کو ہلاک کردیتا یا درندہ، انسان کو۔ بہرصورت، نتیجہ کسی ایک کی موت پر منتج ہوتا۔ اس خونی کھیل سے اہلِ روم کافی محظوظ ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں، اس مقام پر مشہور رومن افسانوں پر مبنی ڈرامے، تماثیل پیش کرنے کے علاوہ مجرموں کو پھانسی بھی دی جاتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب رومی سلطنت، شمال میں برطانیہ، جنوب میں افریقا اور مغرب میں قسطنطنیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ان تمام خونی تماشوں کا مقصد شہریوں اور بیرونِ ملک دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھانااوریہ ثابت کرنا تھا کہ اہلِ روم بہت بہادر ہیں۔ اس عمارت میں خونی تماشوں کا سلسلہ 404ء عیسوی تک جاری رہا۔ متعدّد زلزلوں اور چوروں کے ہاتھوں کولوزیئم کو شدید نقصان پہنچا۔ تاہم، اس کے چند حصّے اب بھی بہتر حالت میں موجود ہیں۔ 

کولوزیئم، روم کی علامت اور رومی طرزِ تعمیر کا شاہ کار سمجھا جاتا ہے اور دنیا بھر سے لاکھوں سیّاح اس کا نظارہ کرنے یہاں آتے ہیں۔ اپنے دَور کی اس سب سے بڑی عمارت کی بلندی 48میٹر، لمبائی 188میٹر اور چوڑائی 156میٹر تھی۔تین بیرونی فرشوں میں سے ہر ایک میں 80محرابیں تھیں۔ اس عمارت کی وسعت اور شان و شوکت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمیر میں ایک لاکھ مکعب میٹر سے زیادہ چونے کا پتھر استعمال ہوا۔ اگرچہ آج اکھاڑے کا فرش باقی نہیں رہا، تاہم عمارت کی دیواروں اور راستوں کے کھنڈرات دیکھے جاسکتے ہیں کہ تماشا گاہ کی نشستوں میں حفظِ مراتب کا خیال رکھا جاتا۔ 

نشستوں کو مختلف حصّوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور اس میں 50 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، جس میں بادشاہ، امرا، مصاحبین، عام شہریوں اور غلاموں کے لیے الگ الگ درجہ بندی بھی کی گئی تھی۔ پہلا چبوترا بادشاہ کے لیے مخصوص تھا، جو تمام ترسہولتوں سے آراستہ تھا۔ اس کے اوپر کی جگہ شہر کے اُمرا کے لیے مخصوص ہوا کرتی، جب کہ تیسرے درجے میں مزید تین حصّے تھے۔ پہلا نچلا حصّہ عام شہریوں کے لیے، اس کے اوپر غریب شہریوں اور سب سے اوپر کا حصّہ کم تر طبقے کی عورتوں کے لیے مخصوص تھا۔ صدیوں پرانی تاریخ کی حامل اس عمارت کو مختلف واقعات و حادثات اور بدلتے موسموں نے شکست و ریخت کا شکار کردیا ہے۔ اب ماضی کی اس عظیم تماشا گاہ کے محض کھنڈرات ہی بچے ہیں۔ عمارت کے مختلف حصّوں اور گوشوں میں کچھ دیر گھومنے پھرنے اور تصاویر بنانے کے بعد ہم پیدل پیازوینزیا(Piazza Venezia) جاپہنچے۔ 

یہ اٹلی کا مرکزی علاقہ تصوّر کیا جاتا ہے، جہاں کئی راستے ایک دوسرے کو آپس میں ملاتے ہیں۔ پیازوینزیا، کیپیٹولین ہل (Capitoline Hill) کے نیچے واقع ہے، جو روم کی سات پہاڑیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ہر وقت ٹریفک کا ازدحام رہتا ہے۔ یہیں پالازو وینزیا( Palazzo Venezia) کی ایک تاریخی عمارت میں قرون ِوسطیٰ کا ایک میوزیم ہے، جسے اطالوی زبان میں میوزیو ڈی پالازو(Museo di Palazzo) کہا جاتا ہے۔ اسی عمارت کی تاریخی بالکونی سے مسولینی نے اپنی مشہور تقریریں کی تھیں۔ پالازو وینزیا، شہر کے عین وسط میں واقع ہے۔ یہاں ہم دیگر سیّاحوں کے ساتھ نہ جانے کتنی دیر مختلف مقامات پر گھومتے رہے۔ مختلف زاویوں سے تصاویر بنانے کے بعد ہم قلعے کے مختلف حصّوں سے گزرتے ہوئے اس مشہور ستونوں والی عمارت کے سامنے پہنچ گئے، جسے رومن فورم کا نام دیا گیا ہے۔ 

یہ ایک مستطیل فورم یا پلازا ہے۔ قدیم شہر کے لوگ اس جگہ کا حوالہ ایک بازارکے طور پر دیتے ہیں۔ یہ کبھی روزمرّہ زندگی کی سرگرمیوں کا مرکزہوا کرتا تھا اور یہاں سیاسی جلسے جلوسوں کے علاوہ مقدمات کے ٹرائل بھی ہوتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہر سال تقریباً 45لاکھ سیّاح اس عمارت کو دیکھنے آتے ہیں۔ شکستہ ہوتے ان ستونوں اور اس کے اردگرد کے آثار اپنے اندر ایک کشش لیے ہوئے ہیں۔ ایسی کشش، جو یہاں آنے والوں کو صدیوں پرانے زمانے میں لے جاتی ہے۔ قدیم شہر کے بہت سے اہم ترین ڈھانچے، فورم پریا اس کے قریب واقع ہیں۔ 

شمال مغرب کی جانب دیگر قدیم مزارات اور جمہوریہ کا رسمی اسمبلی ایریا بھی ہے۔ اسی جگہ سے سینیٹ اور ری پبلکن حکومت کا آغاز ہوا تھا، لیکن سینیٹ ہائوس، سرکاری دفاتر، ٹربیونلز، مندروں، یادگاروں اور مجسّموں نے آہستہ آہستہ اس علاقے کو بے ترتیب سا کردیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اسمبلی ایریا کی جگہ بڑے ملحقہ فورم نے لے لی اوراقتصادی اور عدالتی کاروبار، فورم رومینم سے شمال کی طرف زیادہ بڑے ڈھانچے ٹریجنز فورم اور باسیلیکا الپیا (Trajan's Forum and the Basilica Ulpia) میں منتقل ہوگئے۔

ماضی کے اس عظیم سیاسی، سماجی اور معاشی مرکز کے کھنڈرات پر نظریں دوڑاتے ہوئے ماضی کے تمام ادوار کے واقعات ایک ایک کر کے ہماری نظروں کے سامنے آنے لگے تھے۔ پیدل چل چل کر تھکن سے برا حال ہوگیا، تو صدیوں پرانے فرش پر ایک شکستہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ ارسلان کہیں سے پانی کی بوتل لے آیا۔ پانی پی کر دوبارہ چلتے ہوئے اس چوک میں آگئے، جہاں سے ہمیں سانتا ماریا دی لوریٹو(Santa Maria di Loreto)جانا تھا۔یہ16ویں صدی عیسوی کا ایک گرجا گھر ہے، جو وٹوریو ایمانوئل ثانی کی دیوہیکل یادگار کے سامنے سڑک کے پار واقع ہے۔ 

یہاں کے مختلف قدیم حصّوں سے روشناس ہوتے ہوئے ہم وکٹر ایمانوئل دوم کی یادگارکے سامنے جاپہنچے۔ یہ اٹلی کی ایک بڑی قومی یادگار ہے، جسے 1885ء اور 1935ء کے درمیانی عرصے کے دوران اطالوی بادشاہ، وکٹر ایمانوئل دوم کے اعزاز میں تعمیرکیا گیا تھا۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔ ہم دوبارہ کلوزیئم کے سامنے سے ہوتے ہوئے شہر کے مرکزی حصّے میں پہنچ گئے۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب گاڑی پارک کی اورروم شہر کی خاک چھاننے لگے کہ اِن گلیوں، بازاروں میں صدیوں سے ٹھہرے وقت کی خوشبوبسی تھی۔ بچپن میں بغداد کی گلیوں سے متعلق پڑھ کرذہن میں جو تصویر ابھرا کرتی تھی، وہ آج سامنے تھی۔ اسٹیشن پر ہوٹل سے اٹالین پیزا کے ساتھ مٹن قورما، دال چنا، چاول اور گرم گرم روٹیوں کا ڈنر کیا۔ 

وہاں سے ارسلان ہمیں اپنے فلیٹ لے گیا۔ اس تین کمروں کے فلیٹ میں اُس کے ساتھ، اُس کے دوست بھی رہائش پذیر تھے۔آج کی رات ہمیں یہیں گزارنی تھی۔ رات دیرگئے تک ہم نے ان پانچوں پاکستانی نوجوانوں کی جہدِ مسلسل کی کہانیاں سنیں، جو کم و بیش ایک ہی طرح کی تھیں۔ ڈنکی کے ذریعے اٹلی پہنچنا، پناہ گزین کیمپ میں رہنا، کم معاوضے پر ملازمتیں کرنا، برسوں کی محنت کے بعد قانونی حیثیت ملنااور پھرکم از کم دس سال بعد پاکستان جاکر اپنے پیاروں سے ملنا۔

قطر کے ساحل سمندر کا ایک خوب صورت منظر
قطر کے ساحل سمندر کا ایک خوب صورت منظر

اگلی صبح ارسلان نے اپنے ہاتھوں سے آلو، انڈے کی بھجیا پکا کر شان دار ناشتا کرواکے پردیس میں گھر کی یاد تازہ کروادی۔ ناشتے کے بعد براستہ قطر ہماری پاکستان روانگی تھی، حسبِ وعدہ ارسلان اُس کا دوست ائرپورٹ چھوڑنے جارہے تھے۔ ہائی وے کے دونوں طرف سبزے کے میدانوں کو دیکھتے ہوئے دھیان نیلگوں پانیوں میں تیرتے اس شہر ’’وینس‘‘ کی طرف چلا گیا، جسے دیکھنے کا برسوں سے اشتیاق تھا، لیکن وقت کی قلّت کی بِنا پر دیکھنے سے محروم رہ گئے۔ بہرحال، اب روم سے ہماری روانگی تھی۔ ہم نے ارسلان اور اس کے دوستوں کا شکریہ اد ا کیا اورائرپورٹ کی عمارت میں داخل ہوگئے، جہاں ایک لائن امریکن شہریوں، دوسری یورپی یونین کے رکن ممالک کے شہریوں اور تیسری باقی دنیا کے شہریوں کے لیے مختص تھی۔ 

یہ امتیازی سلوک دیکھ کر چند لمحوں کے لیے دُکھ ہوا، مگر اُس وقت دل کو تسلّی ہوگئی، جب دنیا کا نمبرون پاسپورٹ تھامے ایک جاپانی نوجوان کو اپنے آگے کھڑے دیکھا۔ کائونٹر پر بے زار سے چہرے والے اٹالین نے ہمارا پاسپورٹ لیا، ایک لمحے کے لیے حیرت سے دیکھا، یورپ میں داخلے کی تاریخ دیکھی اور Exit کی مہر لگادی۔

قطر کا میوزیم آف اسلامک آرٹ
 قطر کا میوزیم آف اسلامک آرٹ

قطر ائرپورٹ پر ویزا لینے کے لیے کائونٹر پر پہنچا تو متعلقہ آفیسر نے ہوٹل کی بکنگ، واپسی کا ٹکٹ چیک کرنے کے بعد کائونٹر کے ساتھ نصب آئینے میں چہرہ دیکھنے کو کہا۔ اپنا ہی چہرہ دیکھنے کی شرط پر ایک ماہ کا ویزا ملنا تھا، لہٰذا بخوشی دیکھا، جو ہشاش بشاش تھا۔ دراصل آئینے میں چہرہ دیکھنے پر تصویر بنتی تھی۔ بہرحال، ائرپورٹ سے ٹیکسی لی اور ہوٹل پہنچ گیا۔ دسویں منزل پر آرام دہ کشادہ کمرا دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ رات گہری نیند کے مزے لیتے گزری۔ صبح پہلی منزل پر واقع ریسٹورنٹ سے ناشتا کرکے سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اُتر رہا تھا کہ اچانک آخری سیڑھی پر پائوں پھسل گیا، جس سے منہ کے بل گرپڑا۔ 

دونوں گھٹنوں پر شدید چوٹیں آئیں۔ استقبالیہ پر کھڑے سیکیورٹی کے عملے نے اٹھا کر صوفے پر بٹھایا۔ درد اتنا شدید تھا کہ کتنی دیر کراہتا رہا۔ بیگ سے میڈیکل باکس نکالا، درد کی دوا کھائی اورچوٹ کے مقام پرمرہم لگا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ ڈیڑھ بجے پاکستان کے لیے فلائٹ تھی۔ سو، ایک گھنٹے کے لیے ٹیکسی بُک کرواکرقطر کے اہم مقامات کی سیّاحت کے لیے نکل پڑے۔ ٹیکسی ڈرائیور مہربان اور تعاون کرنے والا تھا، اس نے انتہائی کم وقت میں قطر کے اہم سیّاحتی مقامات، یعنی نیشنل میوزیم، میوزیم آف اسلامک آرٹ، فیفا فٹ بال اسٹیڈیم کی یادگاراور کلچرل سینٹر سمیت دیگر مقامات کی بھرپورسیرکروانے کے علاوہ ساحلِ سمندر کی بھی سیر کروائی، جہاں ہم نے کچھ وقت گزارا اور یادگار تصاویر بنائیں۔ 

ائرپورٹ پہنچا، تو دونوں گھٹنوں میں دوبارہ درد شروع ہوگیا۔ بڑی مشکلوں سے رینگتے ہوئے جہاز کی سیٹ تک پہنچا۔ اور پھر، لاہور ائرپورٹ پر جہاز اُترا، تو پاکستانی مسافروں نے روایتی دھکم پیل شروع کردی۔ درد سے کراہتے ہوئے جہاز کے دروازے تک پہنچا، تو کئی وہیل چیئرز نظر آئیں، ایک پربیٹھ گیا اور مسافروں ہی میں سے ایک نوجوان نے وہیل چیئر چلانی شروع کردی۔ اُسی نے میرے پاسپورٹ پر Exitکی مہر لگوائی اور ائرپورٹ کی عمارت سے باہر لے آیا۔ باہر ناصر معروف میرے منتظر تھے۔ اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہوگئے، انھیں سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بہرحال، گاڑی میں بیٹھتے ہی اس پورے دورے میں جن دوستوں نے اپنی محبتوں سے نوازا تھا، انہیں شکریے کے پیغامات ارسال کیے۔

گاڑی لاہور،رِنگ روڈ پر رواں دواں تھی اور مَیں زندگی کے نشیب و فرازکے رازوں میں گم۔ میرے اس سفر کا آغازمحبّتوں، مہربانیوں اور آسانیوں سے ہوا تھا، جب کہ اختتام قدرے درد انگیز تھا۔ خود ہی سے سوال کیا کہ ’’کیا پھر سے رختِ سفر باندھوگے؟‘‘ اور اندر سے کسی نے پُریقین لہجے میں جواب دیا۔ ؎ ’’ہم دُہری اذیّت کے گرفتار مسافر.....پائوں بھی یہیں شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا۔‘‘ (ختم شُد)

سنڈے میگزین سے مزید