اسلام آباد (محمد صالح ظافر) پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف بدھ کی سہ پہر کم و بیش پونے سات سال کے بعدپارلیمانی سیاست میں واپس آتے ہوئے جب پارلیمنٹ ہائوس کے تاریخی کمیٹی روم نمبردو میں پہنچے تو پاکستان مسلم لیگ نون کے ارکان سینیٹ و قومی اسمبلی نے ان کا والہانہ خیرمقدم تادیرکھڑے ہو کر تالیاں بجا کرکیا یہ وہی کمیٹی روم ہے جس میں ان کی زیر صدارت حکمران جماعت نے غیر معمولی اہمیت کی قانون سازی کی منظوری دی جس میں آئین کی آٹھویں ترمیم کاخاتمہ بھی شامل تھا جس کی رو سے صدر مملکت کا قومی اسمبلی توڑ دینے کا آئین کی دفعہ 58 ٹو بی کے تحت اختیار ختم کردیا گیا تھا نواز شریف وزیراعظم کے لئے مخصوص تہہ خانے کی پارکنگ سے متصل گزرگاہ کے ذریعے پارلیمنٹ ہائوس میں داخل ہوئے توان کا خیرمقدم شہباز شریف، سینیٹر اسحاق ڈار، سردارایاز صادق اور حمزہ شہباز نے جماعت کے سربرآوردہ رہنمائوں کے ساتھ مل کر کیا وہ سیدھے سینیٹرڈار کے بطور قائد ایوان سینیٹ چیمبر میں چلے گئے جہاں مختصر صلاح مشورے کے بعد وہ کمیٹی روم نمبر دو میں آگئے جہاں قومی اسمبلی کے 104اور سینیٹ کے تقریباً 30 ارکان ان کا خیرمقدم کرنے کے لئے موجود تھے۔ مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کیا جس میں نواز شریف کو فراخدلانہ خراج تحسین پیش کیا گیا انہوں نے نواز شریف کو معمار پاکستان اور عظیم مدبر قرار دیتے ہوئے ان کی قیادت کو ہدیہ تحسین پیش کرنے کے لئے قرارداد پیش کی جسے اتفاق رائے سے تالیوں کی گونج میں منظور کرلیا گیا۔ اس دوران نواز شریف جواس گفتگو سے مسرور ہورہے تھے بادام اور دوسرے خشک میوہ جات سے کام دھن کرتے رہے انہوں نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یاد دلایا کہ شہباز شریف نے اپنی گزشتہ ڈیڑھ سالہ حکومت میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اعلان کیا کہ وہ وزارت عظمیٰ کے لئے بہترین انتخاب میں اس کے ساتھ ہیں انہوں نے شہباز شریف کی بطور وزیراعظم نامزدگی کا ا علان کردیا برابر میں بیٹھے شہباز شریف نے اس پر اٹھ کر نواز شریف کو گلے لگالیا مسلم لیگ نون کے قائد نے سابق اسپیکر سردارایاز صادق کو تیسری مرتبہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پرنامزد کرنے کا اعلان کیا تو وہ عقبی نشستوں پر بیٹھے تھے جہاں سے وہ اٹھ کر آئے اور انہوں نے احتراماً نواز شریف کے گھٹنوں کو چھوا جس پر سابق وزیراعظم نے ان سے بھی معانقہ کیا۔ اپنے خطاب میں نواز شریف نے رائے ظاہر کی کہ اگر انہیں 2017ء میں حکومت سے نہ نکالا جاتا تو آج پاکستان گروپ بیس کے ممالک میں شامل ہوچکا ہوتا انہوں نے عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور بعض دیگر ججوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے خلاف غیض و غضب سے بھرے تھے جس کے باعث ان کے مقدمات میں غیر منصفانہ فیصلے سنائے آج یہ جج کہاں ہیں وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں نواز شریف نے ایک سے زیادہ مرتبہ سوال کیا کہ ان کے خلاف فیصلے کیوں صادر کئے گئے جن سے جماعت ہی نہیں ملک کو بے پناہ نقصان ہوا۔