اسلام آباد (فاروق اقدس/ تجزیاتی جائزہ) ’’اڈیالہ جیل سے ایک اور متنازع فیصلہ موضوع بحث‘‘’’کیا صدارتی منصب پر نامزدگی‘‘ قومی اسمبلی میں ایک ’’تقریر کا سیاسی ثمر ہے‘‘ بھارت اور افغانستان کے حوالے سے بیانات کے تناظر میں قوم پرست امیدوار کا دفاع مشکل ہوگا ،9 مارچ کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں حکمراں اتحاد کے طے شدہ معاہدے کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے مقابل آنے والے سنی اتحاد کونسل کے امیدوار قوم پرست راہنما محمود خان اچکزئی کے بعد آصف علی زرداری کی کامیابی مزید استحکام کے ساتھ یقینی ہوگئی ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے ہفتے کو سابق صدر آصف علی زرداری سے وفد کی ملاقات اور صدارتی انتخاب میں انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ ان کے مقابل محمود خان اچکزئی کو صدارتی امیدوار بنائے جانے کے چوبیس گھنٹے بعد ہی منظرعام پر آگیا ۔ موجودہ صورتحال میں اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اب تک قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں کو ووٹوں کی جس شرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا صدر کے انتخاب میں اس شرح میں اضافہ نظر آئے، کیونکہ مختلف مواقعوں اور پڑوسی ملک بالخصوص افغانستان اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے دیئے گئے محمود خان اچکزئی کے بیانات اور موقف تنازعات کا شکار رہے ہیں جس پر انہیں ناقدین کے شدید ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے جو خود بھی ان کے ناقدین میں شامل رہے ہیں اور ان کے ملبوس کا تذکرہ بھی تضحیک آمیز لفظوں اور انداز میں کرتے آئے ہیں، قوم پرست راہنما کا نام صدارت کیلئے تجویز کرنا بادی النظر میں تو یہی قیاس کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے موقع پر قومی اسمبلی کے ایوان میں کی جانے والی تقریر سے متاثر ہوکر کیا ، جس میں انہوں نے عمران خان کی رہائی کے مطالبے سمیت اسٹیبلشمنٹ پر تنقید اور الزامات کے حوالے سے ان کے بیانیے کو ایوان میں پیش کیا اگر ایسا ہی ہے تو یقیناً یہ ایک عارضی صورتحال سے متاثر ہوکر کیا جانے والا جذباتی فیصلہ ثابت ہوسکتا ہے۔