کراچی (امداد سو مرو ) کراچی میں اربوں روپے مالیت کی 5500ایکڑ قیمتی سرکاری اراضی غیر قانونی طور پر بار اثر افراد کو غیر قانونی طور پر الاٹ کردی گئی ہے جن میں قبضہ مافیا اور بلڈرز مافیا شامل ہیں ، یہ زمین سپریم کورٹ کی جانب سے پابندی کے باوجود 2012ء سے 2023ء کے درمیان اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی گئی ہے، دھوکہ دہی میں ملوث بااثر افراد نے انکوائری رکوادی ، چیف منسٹر کے انسپکشن، انکوائریز اینڈ امپلی منٹیشن ٹیم کے چیئرمین محمد رفیق بریرو نے دی نیوز کو بتایا کہ سٹاف کی کمی اور ریونیو افسران خصوصاً بورڈ آف ریونیو (BoR) کے افسران کے عدم تعاون کی وجہ سے تحقیقاتی کام تعطل کا شکار ہے۔تفصیلات کے مطابق ہزاروں ایکڑ پر مشتمل قیمتی اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی وزیراعلیٰ سندھ کے انسپیکشن ‘ انکوائری و عملدرآمد ڈپارٹمنٹ کی ٹیم نے چھان بین اور تحقیقات شروع کردی تھیں ۔ سرکاری ریکارڈ میں ردو بدل کے ذریعہ اس جعل سازی کا ارتکاب کیا گیا ہے ۔ معائنہ ٹیم کو تحقیقات کی ذمہ داری نگراں سابق وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر نے عوامی شکایات پر سو پنی تھی ۔ جس کےلیے تحقیقات ٹیم وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے رکن آغا اعجاز پٹھان سیکشن آفسیر سیدمحمد، ریونیوسے متعلق شوکت بھنگواراور سپر وائرنک ذمہ دار میر برکت تالپور پر مشتمل ہے ۔ مذکورہ اراضی کراچی کے اضلاع ویسٹ ‘ ایسٹ کورنگی ملیر اور کیماڑی میں پھیلی ہوئی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پابندی کے باوجود 2012ء سے 2023ء کے درمیان اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی گئی ۔ عدالت عظمیٰ نے کئی درخواستوں اور از خود نوٹس کے تحت کارروائی کرتے ہوئے سندھ بورڈ آف ریونیو اور سندھ لینڈ یوٹیلائز یشوڈپارٹمنٹ کو الاٹمنٹ یا منتقلی کے آرڈر جاری کرنے سے روکا ۔ معائنہ ٹیم نے پہلے تحقیقاتی مرحلے میں5500ایکڑ اراضی میں جعل سازی کی نشاندہی کی ۔ جو ضلع غربی کی تحصیل منگھو پیر میں واقع ہے بورڈ آف ریونیو میں ذرائع نے بتایا کہ فراڈ میں ملوث با اثر مافیا نے چیئرمین انوسٹی گیشن کے کام کو روکوایا ۔ محمد رفیق برڑو نے بتایا کہ تحقیقات کا مرحلہ با لآخر مکمل ہو گیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ متعدد خطوط لکھے جانے کے باوجود سندھ ریونیو بورڈ کے حکام مطلوبہ ریکارڈ فراہم نہیں کررہے ۔تا ہم چیئرمین رفیق بر ڑو کے دعوے کے باوجود معائنہ ٹیم کے رکن کی تیار کردہ جعل سازی پر رپورٹ وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکرٹری کو پیش کردی گئی ہے ۔ ریکارڈ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ ڈپٹی کمشنر ویسٹ کے دفتر میں اراضی ریکارڈ 2021ء میں جل گیا تھا ۔ لیکن ڈپٹی کمشنر وضاحت نہیں کر سکے کہ اصل ریکارڈ کی عدم موجود گی میں اراضی کی الاٹمنٹ اور منتقلی کا کام کیوں کرہو سکا ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آگ مبینہ طور پر دانستہ لگائی گئی ۔ تا کہ جعل سازی پر پردہ ڈالا جا سکے ۔ اس کے علاوہ بھاری رشوت کے عوض افغان باشندوں کو غیر قانونی ڈومیسائل دیئے جانے کا ریکارڈ بھی دستیاب نہیں ہے ۔