مومنہ حنیف
نشئیوں کی جگہ جگہ ٹولیاں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہےکہ یہ کن کے جوان بچے ہیں جو اس لعنت کا شکار ہیں، انہیں نہ دن کی فکر ہے نہ رات کی پروا ۔ جب یہ پیدا ہوئے ہوں گے تو والدین نے کتنی خوشیاں منائی ہوں گی، مٹھائیاں تقسیم کی ہوں گی لیکن آخر وہ کون ہیں جنہوں نے انہیں گمراہی کے راستے پہ ڈال کران کا مستقبل تباہ کردیا، ماں باپ کے لیے اُن کے لختِ جگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ارد گرد سے ہی غافل ہوگئے اب چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔
انہیں منشیات کی لت ایسی پڑی کہ اپنی ہی زندگی بر باد کر لی۔ ہم میں سے لاتعداد لوگوں نے راہ چلتے دیکھا ہوگا کہ اکثر فلائی اوورز کے نیچے، لیاری ندی کے کنارے پر اور میدانوں میں یہ نوجوان سر پر چادر تانےگندے دنیا و مافیا سے آزاد ہوکر نشہ کررہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں جس قدر زیادہ نوجوان نشہ کررہے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ منشیات فروشوں کی تعداد ہے لیکن وہ نہ جانیں نظر کیوں نہیں آتے،وہ کب کیسے یہ زہر نسل نو کی رگوں میں سرائیت کرکے ہوا ہو جاتے ہیں۔ منشیات فروشوں نے اب پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اپنی چین کا حصہ بنا لیا ہے، رکمیشن پر انھیں کام دیا جاتا ہے۔ وہ کچی آبادیوں اور مختلف علاقوں میں ان پڑھ اور زیادہ تر بیروزگار نوجوانوں کو فروخت کرتے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں واقع اسکولز اور کالجز کے باہر بھی منشیات فروشوں کے کارندے طلباءکو منشیات فراہم کرتے ہیں۔
حقائق انتہائی کرب ناک اور دلوں کو دہلانے والے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو معاشی بحران اور مادہ پرستی کی دوڑ میں لگا کر شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ وہ اس ڈپریشن سے نکلنے کا واحد علاج جان لیوا نشوں ہی کو سمجھتے ہیں، اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرتے ہیں۔ اپنا نشہ پورا کرنے کےلئے چوریاںتک کرتے ہیں۔ شاہراہوں، فٹ پاتھ کے جنگلے، اوورہیڈ برج، میدانوں، پارکوں کی گرل، گیٹ، پلوں کے اوپر لگے لوہے کے نٹ بولٹ، چادریں نشہ خریدنے کی نذر ہورہی ہیں۔
ماہرین ِنفسیاتک کے مطابق کے منشیات کے استعمال کی تین بنیادی وجوہ ہیں، جن میں ذہنی دباؤ سرفہرست ہے، جوجذباتی، معاشرتی، گھریلو حالات اور تعلیم کا بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن اور تیسری وجہ برے دوستوں کی صحبت ہے۔ کچھ دوست منشیات استعمال کرتے ہیں توان کے بہکاوےمیں آکروہ بھی اس کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ نسل نومعاشرتی ردعمل اور درست رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نشے کوکر رہی ہے۔
معاشرے کو ایک نشئی کئی نشئی دیتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ منشیات سے سب سے زیادہ 13 سے 25 سال کے نوجوان متاثر ہورہے ہیں۔ پوری قوم کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جس کو مستقبل کا معمار بننا، ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانا ہے وہ خود کچرا کنڈی اور نالوں کے ارد گرد ڈیرے ڈالےنظر آرہے ہیں۔ معاشی اصلاح کا علم اٹھانے والی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منشیات سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں ہورہا ہے۔
سب اپنے اپنے مفاد میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ انہیں آنے والے مستقبل کو تابناک بنانے کی کوئی خواہش نہیں۔ نوجوان قوت کو کمزور بنانے کا مطلب ملک کو کمزور بنانا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اگر اس سے محفوظ نہیں تو پھر کیا کہیں۔ تعلیمی اداروں میں جہاں اس ملک کے مستقبل کے معمار تیار ہوتے ہیں، وہاں بھی منشیات فروشوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولس انتظامیہ کا اس پر کنٹرول کیوں نہیں ؟ ڈرگ ڈیلرز کون ہیں؟ اور اس کا کاروبار کس طرح کیا جارہا ہے؟کون ہے جو ان سوالوں کا جواب دے گا۔
جب تک منشیات کے بڑھنے کے اسباب و محرکات کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک اس کے خاتمے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ملک میں آگاہی کی مہمات نہ ہونے کہ برابر ہیں۔ اس کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کے سورس کو روکا جائے۔
منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کی ایک اوروجہ ہمارے معاشرتی روئیے بھی ہیں ہمیں چاہئے کہ ایسے افراد جو نشے کے عادی ہو چکے ہوں انہیں نتقید کا نشانہ بنانے کے بجائے انہیں درست سمت کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
شہر کے معزز علماء، اساتذہ ،حکومت کے ساتھ ساتھ اساتذہ، والدین، سماجی و رفاہی و ملی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد، اور ڈاکٹروں کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے اس لعنت کے خاتمے کے لیے مکمل کوشش کریں۔