اسلام آباد ( نیوز ایجنسیاں ) اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت آج بدھ تک کیلئے ملتوی کردی گئی چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کو آج بدھ کو مکمل کرنے کاعندیہ دیدیا۔
دوران سماعت شاہ محمود قریشی کے وکیل نے کہا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی، عمران خان نے متعلقہ افسران سے مشاورت کرکے سائفر کو پبلک کرنے کا کہا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ اعظم خان نے سائفر پڑھا ہوا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر پر اپیلوں کی سماعت کے دوران موصول ہونے والے خطوط کا تذکرہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خط موصول ہوئے ہیں، آج کی سماعت میں تاخیر کی ایک وجہ یہی تھی، بنیادی طور پر ہائی کورٹ کو تھریٹ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی و دیگر عدالت کے روبرو حاضر ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں کیس سے متعلق تقریبا تمام تر خرابیاں واضح کرچکا ہوں، اب 2 گواہوں کے بیانات سے شروع کرونگا۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ دستاویزات سے متعلق اہم چیزیں ہیں، اسے بھی دیکھنا ہوگا، عدالت نے سلمان صفدر کو اعظم خان کے 164 کا بیان پڑھنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ آپ اعظم خان کے مکمل بیان کو نہ پڑھیں بس جو مخصوص پیرگراف ہیں وہ پڑھیں۔
اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی، انہوں نے اعظم خان کا بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے متعلقہ افسران سے مشاورت کرکے سائفر کو پبلک کرنے کا کہا۔
یہاں چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا اسکا مطلب ہے کہ اعظم خان نے سائفر پڑھا ہوا تھا؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ان چیزوں سے واضح نہیں ہورہا کہ اعظم خان نے سائفر پڑھا تھا۔
سلمان صفدر نے بیان پڑھتے ہوئے بتایا کہ اعظم خان نے وزیر اعظم سے کہا تھا کہ سائفر ڈی کوڈڈ کاپی ہے، بنی گالا میں وزیراعظم کی زیر صدارت سائفر سے متعلق اجلاس ہوا، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ آفیشنل کیبنٹ میٹنگ نہیں تھی؟
وکیل نے بتایا کہ اس حوالے سے ریکارڈ پر کچھ نہیں، سائفر کی ماسٹر کاپی وزارت خارجہ تھی، مگر سائفر کو 27 مارچ کو پبلک کیا گیا، نیشنل سیکورٹی کمیٹی اجلاس کے بعد سائفر کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا گیا۔سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر سے متعلق میٹنگز کے مینٹس نیشنل سیکورٹی ڈویژن نے بنائے تھے.
سائفر کاپی آنے پر بتایا گیا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہوئی، سائفر سے متعلق اس وقت کے وزیر اعظم نے عوامی اجتماع میں بتایا، مجھے نہیں پتہ کہ اس وقت کے وزیراعظم نے جلسہ میں سائفر لہرایا یا سادہ کاغذ؟
اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک بیان میں کچھ اور ہے اور دوسرے میں کچھ اور؟ انہوں نے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ نے اعظم خان کو کنفرنٹ کیا تھا کہ اس وقت آپ نے یہ کہا تھا اور اب آپ نے کچھ اور کہا ہے؟
پہلا بیان مختلف ہو اور بعد میں بیان میں تبدیلی آجائیں تو اس پر قانون کیا کہتا ہے؟وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اعظم خان پر ہم نے نہیں ڈیفنس کونسلز نے جرح کی تھی، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی اجلاس میں جو ہوا وہ بتایا وہ تو ریکارڈ کا حصہ ہے؟ اس نے کچھ چیزیں کہیں ہوگی جو پراسیکیوشن کیخلاف جارہی ہونگی۔
انہوں نے وکیل سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ آپ نے جو چارٹ بنائے ہیں اسکے روشنی میں ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں