اسلام آباد (نمائندہ جنگ،این این آئی ) سپریم کورٹ میںʼʼ ایف آئی اے حکام کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے ʼʼکیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملہ میں آئی جی اسلام آباد پولیس کی جانب سے پیشرفت رپورٹ جمع کروادی گئی ہے جبکہ عدالت نے مطیع اللہ جان کے اغواء کے معاملہ میں راولپنڈی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ ریکارڈ پر لانے اور اس کی نقول مقدمے کے فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس،قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ حکومت مطیع اللہ کے کیس میں کچھ نہیں کرتی تو ایسا حکم دینگے جو پسند نہیں آئیگا، سوشل میڈیا پر جھوٹے تبصرے کر کے ڈالر کمانے والوں کو جیل بھیج دیں؟
انہوں نے میڈیا ریگولیشن کے حوالے سے دائر آئینی درخواست واپس لینے سے متعلق دائر متفرق درخواست پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہاکیا مفاد عامہ کی درخواست واپس لینا درخواست گزار کی صوابدید ہے، چیف جسٹس نے عدلیہ سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیشہ ورانہ صحافت کا تقاضا تصدیق کے بعد خبر دینا ہے، لیکن زیادہ سے زیادہ لا ئیکس کیلئے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں چلائی جاتی ہیں۔
چیف جسٹس،قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ جس بینچ نے اس کیس کو پہلے سنا ہے ،وہی سنے گا ۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار سید ابن حسین کے وکیل حیدر وحید کدھر ہیں؟ان کی جانب سے دائر پٹیشن واپس لینے کے لیے ایک نئی متفرق درخواست آئی ہے۔
انہوں نے درخواست گزار پریس ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سید ابن حسین کی جانب سے دائر کی گئی اس آئینی درخواست کا مقصد کیا تھا،نہ وہ خود پیش ہوا اور نہ ہی وکیل ، کیا عدالت کو استعمال کیا گیا ہے ؟