• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’السّلامُ علیکم باجی…‘‘ مُراداں اپنے مخصوص انداز میں سلام کر کے اپنے پہنچ جانے کی اطلاع دے چُکی تھی۔ بصیرہ اُس کی آواز سُن کر مُسکرائیں۔ ’’وعلیکم السّلام، مُراداں!!‘‘ بصیرہ نے مُراداں کا چہرہ دیکھا، جو خوشی سے جگمکا رہا تھا۔ ’’آج بہت خُوش ہو مُراداں…؟؟‘‘ بصیرہ نے اُسے ایک نظر دیکھا۔ ’’باجی! خُوش تو مَیں بہت ہوں۔ 

پہلے اپنا کام کرلوں، پھر آپ کو بتاتی ہوں۔‘‘بصیرہ رمضان میں مُراداں کو صبح صبح بلا لیتی تھیں، تاکہ وہ آرام سے کام مکمل کرلے کہ جُوں جُوں دن چڑھتا ہے، روزے کے ساتھ کام کاج میں مشکل ہوتی ہے۔ یوں بھی بصیرہ خُود بھی سحری کے بعد سونے کی بجائے اذکار و تلاوت میں مصروف ہوجاتیں۔ مُراداں ان کی پرانی ملازمہ تھی۔ وہ کام کرکے جاتی تو پھر بصیرہ ظہر کی نماز پڑھ کرتھوڑی دیر سو لیتی تھیں۔

’’باجی! یہ دیکھیں، یہ مَیں کیا لائی ہوں؟‘‘ مُراداں نے کپڑے میں لپٹی ہوئی کوئی چیز بصیرہ کی طرف بڑھائی۔ ’’کیا ہے یہ؟‘‘ بصیرہ نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ مُراداں نے کپڑے کی تہہ کھولی تو اندر پانچ سو اور ہزار کے کئی نوٹ سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔’’باجی! یہ زکوٰۃ کے پیسے ہیں۔ آپ نے مُجھے بتانا ہے کہ یہ مَیں کیسے خرچ کروں؟‘‘ ’’کس نے دی ہے تمھیں یہ زکوٰۃ؟‘‘’’اوہو، باجی کسی نے نہیں دی، یہ میری بیٹیوں نے نکالی ہے اِس سال زکوٰۃ، دونوں کا کام بڑا اچھا چل رہا ہے ناں باجی۔‘‘ مُراداں کا چہرہ کِھلا ہوا تھا۔ 

بصیرہ نے اُسے حیرت سے دیکھا۔ ’’سچ باجی، یہ آپ کی مہربانی ہے، جو آج ہم جیسوں کو بھی اللہ نے اِس قابل کیا ہے کہ ہم بھی اُس کی راہ میں خرچ کر سکیں۔ ورنہ ہم جیسے لوگ تو زکوٰۃ دینے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔‘‘ مُراداں کا لہجہ احساسِ تشکّر سے گلو گیر ہو گیا۔ بصیرہ کو ساری بات سمجھ آگئی۔

’’مبارک ہو مُراداں، تمھیں اللہ نے نوازا، تو تمھیں یہ توفیق بھی دی کہ تم اُس کا حکم مانو۔ بس، اب شروع کیا ہے، تو اس کام کو جاری رکھنا۔ ابھی کم ہے، تو وہ رب مزید برکت دے گا۔ یہ زیادہ بھی ہوگا، جب زیادہ ہوجائے تو بھی دیتی رہنا۔‘‘ بصیرہ کا لہجہ دھیما تھا۔ ’’تم ایسا کرو کہ اپنے رشتےداروں اور ہم سایوں میں دیکھو، جو ضرورت مند ہیں یہ رقم یا اِس سے کوئی چیز خرید کر اُنھیں دے دو۔‘‘ بصیرہ نے مُراداں کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ ’’ٹھیک ہے باجی، اور ایک دفعہ پھر آپ کا شکریہ۔‘‘ مُراداں کا بس نہیں چلتا تھا کہ بصیرہ کا ماتھا چوم لیتی۔ ’’بس کرو مُراداں، اللہ کا شُکر ادا کرو، وہی کارساز ہے۔ ہم بندوں کو تو وہ ایک دوسرے کا وسیلہ بناتا ہے۔‘‘ بصیرہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئیں اور مُراداں کا کندھا تھپتھپایا۔

دس سال پہلے مُراداں بصیرہ کے پاس آئی تھی۔ کام کاج میں پُھرتیلی اور صفائی پسند تھی۔ چُھٹی بھی نہیں کرتی تھی۔ شوہر نے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔ دو بیٹیوں کا ساتھ تھا۔ بوڑھی ماں کے پاس واپس آگئی۔ وہ تو شُکر تھا، ایک کمرے ہی کا سہی، گھر اُس کی ماں کا اپنا تھا۔ مُراداں اکلوتی تھی۔ ہاتھ میں کوئی ہنر تھا، نہ تعلیم کہ بہتر روزگار مل جاتا۔ سو، لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرنے لگی۔ 

بصیرہ کو اُس کے کام کا انداز اور ایمان داری پسند آئی تھی، لہٰذا اُسے پورے دن کے لیے اپنے پاس رکھ لیا۔ تن خواہ وہ اتنی دے دیتیں، جو سارے گھروں میں کام کر کے ملنے والی رقم سے زیادہ ہوتی۔ کھانے پینے کا سامان بھی ساتھ کر دیتیں۔ سو، مُراداں کی زندگی میں تھوڑی سہولت آگئی۔ ’’مُراداں! تمھاری بچیاں اسکول جاتی ہیں؟‘‘ ایک دن بصیرہ نے پوچھا تھا۔ ’’نہیں باجی، مَیں نہیں پڑھا سکتی اُنھیں، دو وقت کی روٹی پوری کردوں تو بڑی بات ہے۔ دونوں کو آٹھویں کےبعد ہٹا لیا تھا اسکول سے۔‘‘ ’’مُراداں! تم نے اپنی زندگی سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟ جو اب بھی اپنی بیٹیوں کو اسکول سے اُٹھا لیا ہے؟‘‘ 

بصیرہ کا سوال تھا۔’’باجی! کیا کروں سرکاری اسکول والے داخلہ نہیں دیتے کہ اُن کے کاغذ پورے نہیں ہیں اور پرائیویٹ اسکولوں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔‘‘ تب بصیرہ نے اپنے گھر کے قریب کم فیس والے ایک پرائیویٹ اسکول میں اُس کی دونوں بیٹیوں کا داخلہ کروا دیا اور مُراداں کو تاکید کی کہ اِن کو آرام سے میٹرک کر لینے دینا۔ میٹرک کے بعد بصیرہ نے اُس کی بچیوں کو اُن کی دل چسپی کے مطابق سلائی کڑھائی اور بیوٹی پارلر کا کام سیکھنے کے ادارے میں داخل کروادیا۔ کچھ بچیاں محنتی تھیں، کچھ سکھانے والوں کا انداز تھا کہ ایک سال کی تربیت کے بعد دونوں بچیوں نے اپنے اپنے شعبے میں خاصی مہارت حاصل کرلی۔

’’باجی! لائیں اِس دفعہ آپ کےلان کے جوڑے میری بیٹی سی دے گی۔‘‘ ایک روز مُراداں نے کہا۔ بصیرہ نے ڈرتے ڈرتے دوجوڑے اُسے دے دیے، مگر اُس کی بیٹی کی سلائی دیکھ کر دنگ رہ گئیں۔ اُس نے کیا کمال صفائی سے جوڑے سیے تھے۔ بصیرہ نے سلائی کے ساتھ پانچ سو روپے انعام بھی دیا۔ ’’باجی! میری دوسری بیٹی بھی بہت اچھا میک اَپ اور فیشل کرتی ہے۔ گھر میں اِتنی لڑکیاں اور عورتیں کام کروانے آتی ہیں اُس سے بھی۔ 

دونوں اپنے اپنے کام سے اپنا خرچہ نکال لیتی ہیں اور امّاں کی دوائیاں بھی لے آتی ہیں۔‘‘ مُراداں کے لہجے میں بہت اطمینان تھا۔ بصیرہ مُسکرا دیں۔ دراصل بصیرہ کا اپنا سُسرال بھی خاصا کھاتا پیتا تھا اور میکے والے اِن سے بھی زیادہ امیر کبیر تھے۔ اللہ نے اُنھیں اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا، پھر بھی دونوں میاں بیوی راضی بہ رضا تھے۔ اولاد کی کمی کو اُنھوں نےاللہ کی دی گئی دوسری نعمتوں کی ناقدری کا سبب نہیں بنایا تھا۔

’’بصیرہ!اس سال رمضان میں، مَیں پاکستان نہیں آرہا۔ مَیں تمھارے اکائونٹ میں زکوٰۃ کی رقم بھیج رہا ہوں، تم پلیز، ضرورت مندوں کو راشن وغیرہ دے کر یا جیسے مناسب سمجھو، یہ رقم تقسیم کر دینا۔‘‘رمضان سے چند روز قبل بصیرہ کے بڑے بھائی کی کال آئی تھی۔ بصیرہ نے ہامی بھرلی۔ ’’کیا ہو رہا ہے بیگم صاحبہ؟‘‘بصیرہ بھائی کی بھیجی گئی زکوٰۃ کی رقم کی تقسیم کا حساب کتاب کررہی تھیں، جب اُن کے شوہر محمود علی نے پوچھا۔’’بھائی صاحب کی بھیجی ہوئی زکوٰۃ سے راشن کی خریداری کا حساب کر رہی ہوں۔‘‘ بصیرہ کا انداز مصروفیت بَھرا تھا۔ 

اُن کے اپنے مال کی ہر سال اچھی خاصی زکوٰۃ نکلتی تھی، جسے وہ صرف راشن تقسیم کرنے ہی پر خرچ کرتی تھیں۔ ’’یہ لیں ہو گیا حساب، اب مَیں اور آپ چلیں گے اور یہ سامان تیار کروا لیں گے۔ کچھ لوگوں کو کیش دے دیں گے۔‘‘ بصیرہ نے ڈائری میں قلم رکھا اور ڈائری بند کرکے سائیڈ پر رکھ دی۔’’ بصیرہ! مَیں ایک بات سوچ رہا تھا؟‘‘ ’’کیا…؟‘‘ ’’بھائی صاحب نے جتنی رقم تمھیں بھیجی ہے، اگر تم اِس رقم سے کسی ہُنرمند کو اپنے پیروں پر کھڑا کردو، تو زیادہ بہتر نہیں۔ 

مجھے لگتا ہے، اِس طرح اُن کےایک دومہینوں کے راشن کی بجائے، زندگی بھر کے راشن کا انتظام ہوسکتا ہے اور ایک نیچے والا ہاتھ (لینے والا) اُوپر والا ہاتھ (دینے والا) بن سکتا ہے۔‘‘ محمود صاحب کی بات میں دَم تھا۔ بصیرہ سوچ میں ڈوب گئیں اور پھر اُن کے ذہن میں مُراداں کی دونوں بیٹیاں آئیں، جو ہُنرمند اور محنتی تھیں۔ اگر آج اُن کو تھوڑا ساسہارا مل جاتا تو وہ آسانی سے معاشی طور پر خُود مُختار ہوسکتی تھیں۔ ’’ٹھیک کہہ رہےہیں آپ محمود صاحب۔‘‘ بصیرہ نےکہا اور پھر دونوں نے مل کر مُراداں کی دونوں بیٹیوں کے لیے کام کا پکا بندوبست کردیا۔ ایک کوچھوٹا سا سلائی سینٹر کھول دیا، جہاں وہ سلائی کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری لڑکیوں کو سلائی بھی سِکھا سکتی تھی اور دوسری کو ایک کمرے کا بیوٹی پارلر بنادیا۔ مُراداں بہت خوش تھی۔ دونوں میاں بیوی کو دُعائیں دیتےنہ تھکتی تھی۔

یہ کوئی چار سال پہلے کی بات تھی۔ دونوں لڑکیاں محنت سے کام کر رہی تھیں۔ بصیرہ کبھی کبھار مُراداں سے پوچھ لیتیں۔ کبھی خُود چکر لگا آتیں۔ مُراداں اور اُس کی بچیاں اُن کی بہت عزت کرتی تھیں۔ انہی میاں بیوی کی بدولت وہ اِس معاشرے میں قدم جما کر کھڑی ہونے کے قابل ہوئی تھیں۔

’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا محمود صاحب کہ زکوٰۃ کی رقم سے کسی ہُنرمند کو اپنے پیروں پر کھڑا کر کے نیچے والے ہاتھ کو اُوپر والا ہاتھ بنایا جا سکتا ہے۔ آج مُراداں اپنی بیٹیوں کی کمائی سے زکوٰۃ کی رقم لے کر آئی تھی کہ وہ اُسے کیسے خرچ کرے۔ یقین جانیں، مجھے اتنا اچھا محسوس ہوا۔ وہ خُود بھی بہت خُوش تھی۔ اللہ کا شُکرادا کر رہی تھی کہ اُس نے اُسے اِس قابل بنایا کہ وہ بھی زکوٰۃ دے سکے۔‘‘

افطاری کے بعد نماز پڑھ کر دونوں میاں بیوی چائے پی رہے تھے، جب بصیرہ نے مُراد صاحب کو بتایا۔ ’’بس ہم لوگ زکوٰۃ کے نظام کو درست طریقے سے نافذ نہیں کرتے، اگر یہ نظام درست طریقے سے نافذ ہو جائے اور اِسے ہم علم و ہنر کی ترویج میں استعمال کرنا شروع کر دیں، تو یقین جانو، چند سالوں میں مُلک سے غربت، جہالت اور بھوک کا سو فی صد خاتمہ ہوجائے۔‘‘ محمود صاحب نے چائے کی چسکی بَھری اور بصیرہ نے سوچ لیا کہ اب اُنھیں اپنی زکوٰۃ راشن دینے کے ساتھ ساتھ اور کس طریقے سے خرچ کرنی ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید