لاہور (این این آئی) لاہور ہائیکورٹ نے پولیس حراست میں موجود ملزمان کے میڈیا کی جانب سے انٹرویوز کرنے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کیا یہ ہوسکتا ہے ایک میٹرک پاس آدمی اٹھے، کیمرہ لے اور صحافی بن جائے؟،عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایک ایڈووکیٹ ٹک ٹاک ویڈیوز کیوں بنا رہا ہے،لاہور ہائیکورٹ نے کچھ عرصہ قبل احکامات دیئے تھے کہ پولیس حراست میں موجود ملزمان کا انٹرویو نہیں کیا جائیگا، عدالت نے وکلا کے ٹک ٹاک ویڈیوز، تھانے میں پولیس اہلکاروں سے بد تمیزی پر برہمی کا اظہار کیا۔ وشال شاکر کی اسی درخواست پر جمعہ کو ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے سماعت کی۔ دوران سماعت میں ڈی آئی آپریشنز اور پراسیکوٹر جنرل کے علاوہ صحافیوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ پراسکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے توہین عدالت کی درخواست عدالت میں دائر کرینگے۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہاکہ توہین عدالت کی درخواست صرف کانسٹیبلزنہیں، بڑے افسروں کیخلاف بھی ہونی چاہیے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پیمرا کے شکایت سیل نے ابھی تک کسی کو پکڑا بھی ہے یا نہیں ؟۔ وکیل پیمرا کا کہنا تھا کہ جو شکایات ٹی وی پروگراموں کے بارے میں تھیں، انہیں بین کر دیا گیا ہے، ہم نے ٹی وی چینلز کو جرمانہ بھی کیا ہے۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ کے اہلکار اخلاقی طور پر کمزور ہیں، اس لیے وہ ان وکلا کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی وکیل کا ماڈلنگ ،ڈانس وغیرہ پنجاب بار کونسل کے قوائد کے مطابق غیرقانونی ہیں۔