• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری زندگی کراچی میں گزر گئی ۔ ہر تہوار کراچی میں منایا۔ ایک دو بار کراچی سے باہر رہے تو تہواروں پر سب کچھ ہوتے ہوئے بے وطنی کی غربت کا احساس ہوا اور جب آپ کراچی کے باسی ہوں تو پھر کسی تہوار پر اداسی کیسی۔ عید ہو تو یہاں لوگ گلے ملتے ہوئے دل سے دل ملاتے ہیں ۔ کدورتیں بھول جاتے ہیں ۔ بچپن میں تو والد صاحب کے ساتھ بازار جاتے اور کپڑے جوتے لے آتے۔ چاند رات کو گھر میں عجب خوشی کا سماں ہوتا۔ 

صبح نئے کپڑے پہن کر نماز عید پڑھنے جانے اور اس کے بعد عیدی ملنے کا شدت سے انتظار ہوتا ۔ بچوں میں تمہیں کتنی عیدی ملی کا مقابلہ ہوتا ۔ جو والدین نے دلا دیا ، خاموشی سے لے لیا ۔ کبھی ضد نہ کی۔ ویسے بھی لڑکوں کا کیا ہے ۔ سفید شلوار قمیض ، پینٹ شرٹ اور جوتے ۔ فیشن کی وبا نہ چلی تھی ۔ برانڈڈ کا تو کوئی تصور ہی نہ تھا، اس لیے کہاں کا رونا دھونا ۔ ویسے بھی تربیت کچھ ایسی نہ تھی کہ کسی کی حرص کرتے ۔ عید کی نماز پڑھنے والد اور دونوں چچاؤں کے ساتھ جایا کرتے۔ 

گھر آتے تو دودھ چاول جس میں چھوارا پڑا ہوتا ، کھاتے ۔ جس کا مزا آج بھی زبان کو یاد ہے ۔ عیدی بھی کیا تھی۔ آٹھ آنے بہت سے بہت روپیہ ۔ جو پارٹی روپیہ دیتی ہم اس کی راہ تکتے اور جب وہ پارٹی آ جاتی تو اسے ٹکٹکی باندھ کر تکا کرتے کہ کب جیب ہاتھ میں جائے اور روپیہ ہمارے ہاتھ آئے ۔ والدہ پوری طرح ہماری عید کمائی پر نظر رکھتیں ۔ اوقات سے زیادہ ہاتھ میں پیسے ہوں تو یہ کہہ کر لے لیتیں ’’اچھا یہ پیسے تمہارے ہیں اور جو ہم نےمہمان بچوں کو پیسے دیئے ہیں وہ کس حساب میں ؟ ہم اتنے سادہ بلکہ احمق تھے کہ بے چوں و چراں مان لیا کرتے۔ 

اس پر والدہ ایک ڈیل اور دیتیں کہ اگر،’’ تم ایک دو روپے کے علاوہ سارے پیسے میرے پاس رکھوا دو تو میں اس میں کچھ پیسے ملا کر نیا بیڈ یا ہاکی لا دوں گی‘‘ اور ہم ایک دو روپے سے کچھ زیادہ کی ڈیل کر کے ساری عیدی والدہ کو دے دیا کرتے۔ اب اس زمانے میں کھانے پینے کی اتنی چیزیں کہاں ملتی تھیں۔ قلفی والا ٹن ٹن کرتا آ گیا اور ہم ٹنا ٹن اس کی طرف دوڑتے ۔ آٹھ آنے کی بڑی والی قلفی آ جایا کرتی تھی ۔ ہم سب سے بڑی کھوئے ملائی والی قلفی لیتے ۔ قلفی دینے سے پہلے وہ ایک جار میں اسے ڈالتا جس کبھی تو ملائی والا دودھ یا پھر رنگین پسا ہوا کھوپرا ہوتا ۔ وہ کھانے کے دوران ہی بہہ نکلتی۔ 

پہلے ہاتھ کی آستینوں پر آتی۔ زیادہ پگھلتی تو شرٹ پر عید ملنے آجاتی ۔ صاف کرنے کی کوشش کرتے تو اور پھیل جاتی اور شرٹ پر بڑا سا نشان بن جاتا ۔ ہونٹ اور ہاتھ چپچپے ہو جاتے ۔ یاد تو نہیں لیکن پلاسٹک کا چشمہ اور گھڑی بھی خریدی ہو گی جسے بڑی معصومانہ شان سے لگایا ہو گا ۔ دوپہر کو کھانے پر کچھ اچھا ہی پکتا ۔ اس کے بعد چپکے سے باہر جا کر کولڈ ڈرنک پیتے،یہ عید کی سب سے بڑی عیاشی ہوتی۔ کبھی گولا گنڈے والا آ جاتا تو اس پر بھی ہاتھ صاف کرتے۔ گولے گنڈے پر سارے نیلے پیلے شربت ڈالنے کے بعد اوپر سے گاڑھا دودھ ڈال دیا جاتا ، مزا ہی آ جاتا ۔ پہلے زبان سے اس کو چاٹتے اس کے بعد گولے گنڈے کھاتے کم اور گراتے زیادہ ۔ نتیجے کے طور پر ڈانٹ پڑنا لازمی تھی۔

گولا گنڈا کھاتے وقت جب ندیدے پن سے بہت سارا برف منہ میں رکھ لیتےتو اندر دانت اور گال ٹھنڈ سے کڑکڑا اور ہم ہڑبڑا جاتے ۔ کچھ سیکنڈ تو سمجھ میں نہ آتا کہ کریں کیا ۔ کبھی گال پھلائیں تو کبھی برف کو منہ میں ادھر ادھر گھمائیں لیکن پھر سیٹنگ ہو ہی جاتی ۔ سہ پہر تک پاپڑ والا ، گڑیا کے بال والا اور بنگالی چورن والا بھی آ جاتا جس کی انار دانے والی چٹنی اور کالا چورن ایسا ہوتا کہ لکھتے ہوئے بھی منہ میں پانی آ رہا ہے۔ کچھ بچے اس سے ایک پانی بھرے مرتبان سے زندہ مچھلیاں بھی خرید لیا کرتے۔ شام تک جیسے جیسے جیب خالی ہوتی جاتی ، کسی عیدو چچا یا خالو کے آنے کی آس بڑھتی جاتی۔ کبھی نصیب جاگ جاتے تو کبھی امید کا سورج ڈوب جاتا ۔

دوسرے دن دوپہر میں ایک کھانے پر مدعو کیا جاتا۔ ہمیں اندازہ تھا کہ بات آٹھ آنے سے زیادہ آگے نہ بڑھے گی، مگر ہم اس پر بھی خوش تھے ۔ دوسرا دن وزیروں والا ہوتا ۔ تیسرا دن آتا تو ہم خالی الجیب ہو جاتے ۔ دو دن کی عیاشی کے بعد پھر بے عیدی کی رات ، اب والدہ سے مطالبہ ہوتا کہ ہماری جمع شدہ عیدی واپس کی جائے۔ بہت شور کرنے پر آٹھ آنے یا روپیہ دے دیا جاتا ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ دو دن کی فضول خرچی پر پیسوں کی جگہ ڈانٹ پڑ جاتی۔ صاف کہہ دیا جاتا کہ، کتنے پیسے کھاؤ گے۔ کوئی حد ہوتی ہے۔ 

اس بچے کو دیکھو ، تمہارے برابر ہے اور سارے عیدی ماں کو دے دی ۔ایک تم ہو بس جو آئے الا بلا کھا کر ختم کرو ۔ ویسے دنیا کی ہر ماں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ عیدی کے پیسوں سے کھائی جانے والی چیز سے طبعیت خراب ہو جاتی ہے۔ دوسرے بچے سے تقابل کا یہ ڈول کبھی تو ہمارے سر سے اتر جاتا ،کبھی نہیں تو پھر آپ کو تو معلوم ہے۔ ماں بہت محبت کرتی ہے لیکن اس کے دو ہاتھ بھی تو ہوتے ہیں جو بآسانی ہم تک پہنچ سکتے ہیں۔