کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام’’ رپورٹ کارڈ ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال نوازشریف اگر سپریم کورٹ میں فریق بنتے ہیں تو کیا یہ درست فیصلہ ہوگا؟اس کے جواب میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ حکومت میں رہتے ہوئے نواز شریف اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کرسکتے،ایک اور سوال پر تجزیہ کاروں نے کہا کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کا صرف یہی پیمانہ ہے کہ کیا اس کو اسٹبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے اگر ہے تو تحریک کامیاب ہوجاتی ہے،پروگرام تجزیہ کار اعزاز سید،عمر چیمہ ،مظہرعباس نے اظہار خیال کیا۔ تجزیہ کار اعزاز سید نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں نوازشریف سائوتھ ایشیا کے بڑے سیاستدان ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے نوازشریف ابھی تک 2016 میں رہ رہے ہیں۔ ان کے معاملات سے یقیناً ان کی ذات سمیت ملک پر بھی اثر پڑا لیکن وہ ابھی تک اس بات سے نہیں نکل سکے ہیں۔ پہلے وہ خود اسٹبلشمنٹ کا نام لیتے رہے ہیں پھر عدلیہ کا نام لینا شروع کردیا ۔ حالیہ الیکشن نے ثابت کر دیا ہے کہ نون لیگ کی سیاست وینٹی لیٹر پر جاچکی ہے۔ نوازشریف جب تک ماضی کی باتیں کرتے رہیں گے وہ سیاست میں واپس نہیں آسکیں گے۔تجزیہ کار عمر چیمہ نے کہا کہ نوازشریف کا جو طرزِ سیاست ہے اس میں وہ خاموشی کو اپنی طاقت سمجھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس خاموشی سے ہی مخالفین کو پچھاڑ دیں گےلیکن عمران خان کی سیاست اس کے برعکس ہے کہ اگر آپ کو تکلیف ہو رہی ہے تو آپ رونا شروع کردیں اس سے عوام سے ہمدردی بھی ملتی ہے اور دبائو بھی بڑھتا ہے۔ نوازشریف بھی شاید اب یہ سوچ رہے ہیں کہ میں بھی رو کر دکھائوں تاکہ وہ بھی نمایاں ہوسکیں۔ میرے خیال سے نوازشریف شاید کوئی درخواست دے دیں اور سوموٹو کیس پر بھی سوالات آرہے ہیں جس طرح جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا ہے۔اگر یہ بینچ کارروائی جاری رکھتا ہے تو شاید نوازشریف بھی اس میں ہاتھ ڈال دیں کیوں کہ جن چھ ججز کی بات ہو رہی ہے نوازشریف سمجھتے ہیں ان میں سے ایک جج نے نوازشریف کو ہدف بنایا ہے ۔سنیئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ غزہ اور بلوچستان کی صورتحال ایسی ہے کہ اس عید پر عید مبارک کہنا اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ حماس کے سربراہ کے پورے خاندان کو شہید کر دیا گیا ہے۔