اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ کیا ایک خاتون کو خاتون ہونے کی بناء پر ہیروئن بیچنے کی اجازت دی جائے، دوبارہ رہائی کے بعد ہیروئن کا کاروبار شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی،کیا یہ افسوسناک بات نہیں کہ پولیس ملازم ڈکیتی کرے اور پھر کہے مجھے دوبارہ پولیس میں نوکری پر بحال کردیں، کیا درخواست گزار چاہتے ہیں کہ انہیں دوبارہ پولیس میں رکھا جائے تاکہ وہ اوردو،چارڈکیتیاں کر لے،ملازمت سے غیر حاضر ہونا ہی نوکری سے نکالنے کیلئے کافی ہے، غریب لوگوں کو نوکری دے کر نکالنے کا کیا جواز ہے،۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سوموار کے روز سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے ہیرئوئن برآمدگی کیس میں گرفتار مسمات مظلومہ بی بی کی جانب سے دائر ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے راجہ رضوان عباسی بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پوراخاندان اس کیس میں ملوث ہے ، سارا خاندان ہیروئن اور منشیات کے کاروبار میں ملوث ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ٹرائل کورٹ میں چانس لیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ نہیں آئی توتحقیقات کیسے کیں، کیمکل ایگزامینر کی رپورٹ توتفتیشی افسر کی تحویل میں ہونی چاہیے تھی،پراسیکیوشن نے اپنا ساراکیس تباہ کردیا۔