کراچی (رفیق مانگٹ) امریکی میڈیا کے مطابق ایران کے حملے کے جواب میں اسرائیل مخمصے کا شکار ہے، اسرائیل کے پاس بہت کم آپشنزہیں، اور ان میں سے ہر ایک آپشن اسرائیل کے لئے قیمت چکانا ہے۔
امریکی جریدہ فارن پالیسی لکھتا ہے کہ اسرائیل ایران کو کس طرح جواب دے سکتا ہے، اسرائیلی رہنماؤں نےتین ممکنہ طریقوں سےجوابی حملہ کرنے کا عزم ظاہر کیا لیکن ایسا کرنے سے بین الاقوامی حمایت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
پہلا آپشن ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر حملہ،دوسرا کسی اور ہائی ویلیو ہدف کے خلاف کارروائی جیسا کہ کمانڈروں، فوجیوں، یا ایران کے اندر یا باہر مقامات کو نشانہ ، فوجی مقامات یا ہتھیاروں کے ڈپو، یا آئی آر جی سی کے ہیڈکوارٹر پر بھی حملہ کرنا ہو سکتا ہے۔
تیسراآپشن ایرانی پراکسیوں پر حملہ یا ایران پر سائبر حملہ کرنا شامل ہے۔ اسرائیلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ، نیتن یاہو کی جنگی کابینہ نے فوری ردعمل کا مطالبہ کیا لیکن ماہرین زور دے رہے ہیں کہ وہ فیصلے میں جلدی نہ کریں۔
ایران کے جوہری پروگرام پر براہ راست حملے کا مطلب شاید عرب ریاستوں کے ایڈہاک اتحاد کا خاتمہ ہو گا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لبنان میں قائم حزب اللہ جیسے ایرانی پراکسیوں کو اسرائیل کے ساتھ براہ راست تصادم کی طرف بھی کھینچ سکتا ہے۔ سی این این کے مطابق ایران پر براہ راست حملہ ایک اور مثال قائم کرے گا۔
اسرائیل نے گذشتہ برسوں میں ایران میں خفیہ کارروائیاں کی ہیں، اس نے کبھی بھی ایرانی سرزمین پر براہ راست فوجی حملہ نہیں کیا۔
اسرائیل کی ترجیح غزہ میں اپنے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے پر ہے نہ کہ نئے محاذ کھولنے پر۔ غزہ میں ابھی بھی فوجیں لڑ رہی ہیں،لوگ تباہی اور صدمے کا شکار ہیں۔کچھ اسرائیلی سیاست دانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حملے کے بعد حاصل ہونے والی حمایت کا فائدہ اٹھا کر جوابی کارروائی کرے۔
دوسروں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی کریڈٹ کا استعمال یا تو تہران پر حملہ کرے یا غزہ کے رفح شہر پر حملہ کرے۔