کراچی (رفیق مانگٹ) بھارت، کانگریس اشرافیہ اور خاندانی پارٹی کیوں بن کر رہ گئی؟
کئی دہائیوں کی حکمران پارٹی کو اب لوگ متبادل نہیں دیکھ رہے،سن 1988کے بعدپارٹی کواپنے بل بوتے پرحکومت کرنا نصیب نہیں ہوا، سن 1990میں نرسمہاراؤ اور 2004میں منموہن سنگھ، اتحادیوں کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں پہنچے، اپوزیشن تنازعات کا شکار ۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی کے ملک بھارت میں 19 اپریل کو بڑے انتخابات کا آغاز کرے گا۔
ہندوستان میں 96کروڑ90لاکھ اہل ووٹرز ہوں گے جو دنیا کی آبادی کا 10 فی صد سے زیادہ ہیں۔
اس الیکشن میں 2600 سے زائد سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں 15256 فٹ (4650 میٹر) بلندی پر دنیا کا سب سے اونچا پولنگ ہے۔
ووٹنگ ایک دن نہیں بلکہ سات مرحلوں میں تقسیم ہے، جو چھ ہفتے تک جاری رہے گی دس لاکھ سے زیادہ پولنگ بوتھوں میں الیکٹرانک مشینوں کا استعمال ہوگا، اور آپریشن کی نگرانی کے لیے ایک کروڑ 50لاکھ افراد تعینات ہوں گے۔ووٹنگ یکم جون کو ختم جب کہ نتائج کا اعلان 4 جون کو ہو گا۔ہندوستان کے انتخابات دنیا کے مہنگے ترین انتخابات ہیں۔
انتخابی اخراجات41 کھرب 57 ارب (12ارب پونڈ) ہونے کی توقع ہے، جو کہ 2019 کے انتخابات سے تقریباً دوگنا ہے۔
برطانوی اخبار گارڈین ،دی وائر ،الجزیرہ نےتجزیہ کاروں اور سیاسی پول کے حوالے سے لکھا کہ سب سے آگے نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہیں جو 2014 سے اقتدار میں ہیں اور تیسری مدت کے لیے کوشاں ہیں۔ مودی کی بی جے پی نے 2019 کے انتخابات میں 303 سیٹیں جیتی،اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعداد 352 تک پہنچ گئی ۔ اس بار، بی جے پی 543 کی پارلیمنٹ میں 400 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کےلئے پر امید ہے۔
کانگریس، مرکزی اپوزیشن جماعت جس نے پہلے کئی دہائیوں تک ہندوستان پر حکومت کی تھی، اب بہت سے لوگ اسے ایک قابل عمل متبادل کے طور پر نہیں دیکھ رہے ہیں، 1988کے بعد اس پارٹی کو اپنے بل بوتے پر ابھی تک حکومت کرنا نصیب نہیں ہوا ۔