اسلام آباد (رپورٹ :،رانامسعود حسین) لاہور ہائیکورٹ کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کی جانب سے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل صوابدیدی اختیارات کے استعمال کے ذریعے سرکاری خزانے کو مبینہ طور پربادشاہوں کی طرح لٹا نے اور متعدد دیگرمبینہ غیر قانونی احکامات جاری کرنے کے اقدمات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیا ر کیا کہ ہائیکورٹوں کے انتظامی اختیارات فرد واحد( چیف جسٹس )کی بجائے انتظامی کمیٹیوں کے پاس ہونے چاہییں کیونکہ فرد واحد کو اختیارات کا استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بدعنوانی اور اقربا ء پروری کی مثالیں قائم ہو رہی ہیں، درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے ملک بھر کی پانچوں ہا ئیکورٹوں کے چیف جسٹسز کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کا حکم جاری کرنے،سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی کی ریٹائرمنٹ سے 1ماہ قبل جاری تمام نوٹیفکشنزکا عدالتی جائزہ لینے اورلاہور ہائیکورٹ کے افسران کو دی گئی ایڈوانس انکریمنٹس غیرقانونی قرار دے کر واپس سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی ہے ،درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے جمعہ کے روز آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت دائر کی جس میں پانچ ہائیکورٹسں کے رجسٹرارز، چاروں صوبائی او روفاقی حکومت کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اکثر چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے قبل سرکاری خزانے کو بادشاہوں کی طرح لٹا تے ہیں، سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی نے ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ قبل اختیارات کے ناجائز استعمال بدترین مثالیں قائم کی ہیں، بہترین کارکردگی کے نام پر اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل سینکڑوںملازمین کو غیرقانونی ایڈوانس انکریمنٹس دی ہیں ، ہائیکورٹ کے افسروں اور اہلکاروںمیں6 جولائی2021 سے دو ایڈوانس انکریمنٹس دی ہیں، عدالتی تاریخ میں آج تک کسی چیف جسٹس کے سٹاف کو اڑھائی برس کی مدت پر مشتمل ایڈوانس انکریمنٹ دینے کی مثال نہیں ملتی ، ایڈوانس انکریمنٹ تبادلہ شدہ رجسٹرار ہائیکورٹ اور دو ماہ قبل تعینات ہونیوالے رجسٹرار ہائیکورٹ کو بھی دی گئی۔