• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں کیا کیا غیرقانونی، ہمیں بھی سب پتا ہے، چیف جسٹس

کراچی ( اسٹاف رپورٹر  جنگ نیوز)سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چوہدری خلیق الزماں روڈ کی کمرشلائزیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کراچی میں کیا کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں بھی سب پتا ہے ،عدالت نے بلڈر کے وکیل سے سوال سوال کیا کس کو پیسے کھلائے ہیں رسیدیں کہاں ہیں؟ بلڈر کے وکیل نے کہا کہ کے ایم سی اور دیگرکو پیسے دیے ہیں،رسیدیں پیش کرنے کی مہلت دی جائے، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بلڈر نے 22 منزلہ عمارت بنادی ہے مگر رسیدیں نہیں ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں کیا کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں بھی سب پتا ہے،اس موقع پر وکیل درخواست گزار نے کہا چوہدری خلیق الزماں روڈ کمرشلائز نہیں ہوسکتا، عدالت نے درخواست گزار کو بلڈنگ کی کمرشلائزیشن کی مد میں ادائیگی کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی۔عدالت نے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ ،کے ایم سی اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر چوہدری خلیق الزماں روڈ کی کمرشلائزیشن کا ریکارڈ طلب کرلیا جب کہ عدالت نے فریقین کو 25 اپریل کو مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا،دوسری جانب سپریم کورٹ نے کلفٹن میں سرکاری پلاٹ کی ملکیت کا تنازعہ سے متعلق درخواست کےلیے التوا کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوامی املاک شہریوں کی امانت ہے، مفاد عامہ کے کیسز میں التوا برداشت نہیں، عدالت نے سوال کیا کہ شہر کا مئیر کون ہے؟ جس کا وکیل صفائی فروغ نسیم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مرتضیٰ وہاب ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ پیش ہوں، اپنی پیشی پر میئر نے عدالت کو بتایا کہ یہ کیس اگرچہ کے ایم سی نے دائر کیا تھا مگر اب یہ محکمہ کے ڈی اے کے پاس ہے۔ اس پر عدالت نے کے ڈی اے اور کے ایم سی کو ترجیحی بنیادوں پر کیسز چلانے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر پر مشتمل بینچ کے روبرو کلفٹن میں سرکاری پلاٹ کی ملکیت کا تنازعہ سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ شہری حکومت کے وکیل کی جانب سے مہلت طلب کرنے پر چیف جسٹس برہم ہوگئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شہری حکومت کا سربراہ کون ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ میئر کراچی سربراہ ہوتا ہے؟ چیف جسٹس نے پوچھا کون ہے ابھی کراچی کا میئر ؟؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اپنایا کہ مرتضٰی وہاب میئر ہیں کراچی کے۔ سپریم کورٹ نے میئر کراچی مرتضٰی وہاب اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو بھی فوری پیش ہونے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگوں نے عدالت کا مذاق بنایا ہوا ہے، کیس دائر کرتے ہیں تو چلایا کریں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 15 سال سے کیس دائر کیا ہوا ہے چلاتے کیوں نہیں۔ عدالت کا مذاق نہ بنائیں، بار بار التوا کی درخواست دے دیتے ہیں۔ رفاہی پلاٹ کی ملکیت سے متعلق شہری حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔ آپ کچھ بولیں گے بھی یا ہم توہین عدالت لگائیں؟ کیا ہم آپ کو قانون کی کلاسز دیں؟ میئر کراچی و دیگر عدالتی حکم پر پیش ہوگئے۔ چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کو معلوم ہے آپ کو کیوں بلایا ہے؟ مرتضٰی وہاب نے کہا کہ مجھے میڈیا رپورٹس کے زریعے پتہ چلا کہ بلایا گیا ہے۔ میئر کراچی نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب سے پوچھ لیتا ہوں کیا کیس ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو آپ کے مخالف فریق کے وکیل ہیں آپ کا خیال نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ یہ دیکھیں آپ کے وکلا کیا کر رہے ہیں ، پھر کہتے ہیں سپریم کورٹ میں کیسز نہیں چلتے۔ کیس چلانے کا کہا تو آپ کے وکیل نے مہلت طلب کرلی۔ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ کیس سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے دائر کیا تھا اب زمینوں سے متعلق یہ محکمہ کے ڈی اے کے پاس ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ سارا دن خراب ہوا اور آپ کا بھی وقت ضائع ہوا اب بتارہے ہیں یہ کے ایم سی کا مسئلہ ہی نہیں۔
ملک بھر سے سے مزید