اسلام آباد(رپورٹ:رانا مسعود حسین)سپریم کورٹ نے’’فیض آباد دھرنا‘‘سے متعلق انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے آئندہ سماعت تک وفاقی حکومت سے بھی اس رپورٹ کی توثیق کرنے یا نہ کرنے سے متعلق موقف طلب کرلیا ہے جبکہ رپورٹ کی نقول انکوائری کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کو واپس بھجوانے کی ہدایت کرتے ہوئے دو ہفتوں کے اندر اندر ان سے بھی تحریر ی جواب جمع کرانے یا پیش ہوکر وضاحت کرنے کی ہدایت کی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو بلانے تک کی جرات نہیں، کمیشن نے تو اپنے فیصلے میں فیض حمید کا نام تک نہیں لکھا ہے،جو سبق نہیں سیکھتے انہیں سکھایا جانا چاہیے، اگراب تک فیض دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل ہوچکا ہوتا تو شاید نو مئی کا واقعہ پیش ہی نہ آتا؟انکوائری کمیشن نے وقت ضائع کیا، کس سطح کے دماغ نے رپورٹ تیار کی، لگتا ہے ذاتی بغض نکالا گیا، فیض حمید نے فتویٰ دیا اور سب نے مان لیا، جسٹس سعادت خان نے کہا کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا، جسٹس نعیم اختر کہا کمیشن ابصار عالم کا بیان حلف پر لے رہا ہے جنرل فیض کا نہیں لیا۔عدالت نے قرار دیاہے کہ انکوائری کمیشن نے طے شدہ شرائط و ضوابط (ٹرمز آف ریفرنس) پر عمل نہیں کیا ہے، بلکہ کمیشن نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، کمیشن نے مفروضے پر کام کرتے ہوئے متعلقہ امور چھوڑ کر اپنی رپورٹ میں محض صوبائیت کو ہوا دی ہے۔اٹارنی جنرل نے رپورٹ پر حکومت کے جواب سے آگاہ کرنے کیلئے دو ہفتے کا وقت مانگا ہے۔جس پر عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پیر کے روز فیض آباد دھرنا کیخلاف از خود نوٹس کیس کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق مقدمہ کی سماعت کی۔ بیرسٹر منصور عثمان اعوان پیش ہوئے اور فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ کے متعلقہ حصے اور سفارشات پڑھ کر سنائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی، ہمارا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں، 15نومبر 2023کا ہمارا آرڈر بھی پڑھیں، آپ 2019 کا آرڈر پڑھ رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے 15نومبر 2023 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ سب 2007 میں شروع ہوا اور ہم 2024میں پہنچ گئے، پوری دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے، احتجاج کرنا جمہوری حق ہے لیکن کمیشن نے کیا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک شخص کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے، کراچی میں 55 لوگ مر گئے، کوئی بات ہی نہیں، نو سال کا بچہ مرگیا کوئی بات ہی نہیں، فلسطین کے حوالے سے دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں، یورپ میں بھی پرامن مظاہرے ہو رہے ہیں۔