• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی طلبہ ہزاروں ڈالر خرچ کرکے کرغستان کی متنازع یونیورسٹیوں کا رخ کیوں کرتے ہیں

کراچی (نیوز ڈیسک) پاکستانی طلبہ ہزاروں ڈالر خرچ کرکےمیڈیکل کی تعلیم کیلئے کرغزستان کی متنازع یونیورسٹیوں کا رخ کیوں کرتے ہیں .

پاکستانی طلبہ اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرکاری میڈیکل کالجز میں بہت زیادہ میرٹ اور میڈیکل کالجز میں بھی جگہ نہ مل پانے کے باعث طلبہ کی بڑی تعداد کرغزستان کا رخ کرتے ہیں

 غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت 10 سے 12 ہزار کے قریب پاکستانی طلبہ کرغزستان میں زیرِتعلیم ہیں.

 سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی، لمز یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور یورنیورسٹی آف سنٹرل ایشیا بشکیک کے سابق ریکٹر ڈاکٹر سہیل نقوی نے برطانوی نشریاتی ادار ے کو بتایا کہ پاکستانیوں کی جانب سے بھی کرغزستان میں میڈیکل کالجز کھولے گئے ہیں یا ان میں سرمایہ کاری کی گئی ہے، اس کی کوئی منطق نہیں سمجھ آتی کہ آپ ایک یونیورسٹی، جو پاکستان میں کھول سکتے ہیں، اسے اٹھا کر آپ نے ایک مختلف ملک میں کھول دیا ہے۔ کچھ تو غلط ہو رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ یہ کالجز ڈالر میں ہی فیس لیتے ہیں (اس لئے) یہ کوئی سستا آپشن نہیں ہے

 ڈاکٹر سہیل نقوی جو پاکستان اور امریکا میں ایک طویل عرصے تک پڑھا چکے ہیں، نے بتایا کہ ’پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انہیں پاکستان میں مواقع نہیں ملتے، بی بی سی نے پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے نگران ادارے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی ترجمان سے کرغزستان میں جا کر پاکستانی طلبہ کے تعلیم حاصل کرنے، معیار تعلیم اور بیرون ملک سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر کے ملک میں پریکٹس کرنے سے متعلق بات کی ہے۔

انہوں نے بی بی سی کے نامہ نگار عماد خالق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ایم ڈی سی ملک میں طب اور ڈینٹل کی تعلیم کا قومی ریگولیٹر ہے۔’

ادارے کا بنیادی کام بین الاقوامی ضروریات کی روشنی میں مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے طبی تعلیم میں یکساں معیار کو یقینی بنانا ہے اور اسے مریضوں کی حفاظت کے لئےمیڈیکل کی تعلیم کے معیار کو بڑھانے کےلئے ریگولیٹری فریم ورک کی تعمیل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی بھی پاکستانی طالب علم کسی بیرون ملک سے میڈیکل یا ڈینٹسٹری کی تعلیم حاصل کر کے آتا ہیں اور ملک میں پریکٹس کرنے کے لیے پی ایم ڈی سی سے اسے نیشنل رجسٹریشن ایگزمینشن (این آر ای) کے تحت ٹیسٹ پاس کرنا لازمی اور اس میں 50 فیصد نمبر حاصل کرنا ہوتے ہیں۔’جبکہ اگر کوئی بیرون ملک میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طالب علم کو کسی بھی وجہ سے پاکستان واپس آنا ہو اور یہاں کسی ادارے میں بقیہ تعلیم حاصل کرنا ہو کسی بھی وجہ سے تو اس کے لئے اسے نیشنل ایکولینس بورڈ کا امتحان پاس کرنا لازمی ہے۔‘

بیرون ملک غیر معیاری تعلیم اداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ترجمان پی ایم ڈی سی کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی غیر ملکی میڈیکل اور ڈینٹل کالج کے خلاف کوئی شکایت موصول ہونے پر پی ایم اینڈ ڈی سی جانچ پڑتال کے بعد ادارے کی حیثیت کا جائزہ لیتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پی ایم ڈی سی وقتاً فوقتاً ایسی شکایات کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور اپنی ویب سائٹ پر موجود اداروں کی فہرست کو اپ ڈیٹ کرتا رہتا ہے تاہم اس ضمن میں یہ آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے کہ طلبہ بیرونِ ملک صرف ان تعلیمی اداروں میں داخلہ لیں جو پی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ پر موجود فہرست میں شامل ہوں۔

اہم خبریں سے مزید