کراچی ( اسٹاف رپورٹر) کراچی پاکستان کا پہلا شہر جہاں بغیراجازت زیر زمین(بورنگ)کے پانی کو استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی بھاری فیس ادا کرنے کے بعد لائسنس جاری ہوں گے گھریلو صارفین کے علاوہ باقی تمام صنعتی ،تجارتی ،اسپتال ،تعلیمی ادارے لائسنس لینے کے پابند ہوں گےواٹر کارپوریشن کے اس اقدام کا بالواسطہ اثر مہنگائی کی صورت میں عام شہریوں پر پڑے گا واٹر کارپوریشن نے اس سے قبل صنعتی علاقوں کو بورنگ کا پانی سپلائی کرنے کی اجازت دی تھی لیکن متعدد بورنگ کنکشن لیاری ندی اور دیگر علاقوں میں پانی کی لائنوں کے قریب کئے گئے اور لائنوں کا پانی چوری کر کے بورنگ کے پانی میں شامل کیا جاتا تھا جس پر خود وا ٹر کارپوریشن نے متعدد آپریشن کئےواضح رہے اس وقت ملک کے کسی شہر میں زیر زمین پانی کے استعمال پر پابندی یا چارجز وصول نہیں کئے جاتے ہیں واٹر کارپوریشن کے کچھ عرصہ قبل تشکیل پانے والے 14 رکنی بورڈ نے نئی پالیسی کی منظوری دی تھی اس بورڈ میں چیئر مین بورڈ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کےعلاوہ کو ئی منتخب نمائیندہ شامل نہیں ہے تمام ارکان اعلیٰ سرکاری افسران اور پرائیویٹ افراد ہیں دریں اثنا واٹر کارپوریشن کے جاری کر دہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہسندھ حکومت نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے ماتحت زیر زمین پانی نکالنے اور پانی چوری پر قابو پانے کیلئے نئے مسودے کی باقائدہ منظوری دیتے ہوئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا، نئے قانون کے تحت صنعتی علاقوں میں زیر زمین پانی نکالنے کیلئے تمام قوائد و ضوابط پورے کرنے کے بعد 2 سال کی مدت کے لیے لائسنس کا اجراء کیا جائے گا اور تمام بورنگ پر میٹر لگائیں جائیں گے جبکہ پچھلے تمام لائسنس منسوخ کیے گئے ہیں، نئے مسودے کے تحت ایک لائسنس سے چار نمبر بورنگ لگانے کی اجازت ہوگی اس سے زائد بورنگ لگانے کیلئے دوسرا لائسنس لینا پڑے گا، نئے قانون کے مطابق صنعتی مقاصد کیلئے زیر پانی استعال کرنے کیلئے واٹر کارپوریشن سے لائسنس لازمی طور پر لینا ہوگا، زیر زمین پانی کی پانچ کیٹیگری انڈسٹریل، گراؤنڈ واٹر آپریٹر، کمرشل، ہیلتھ کیئر اینڈ ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ اور رہائشی کامپلیکس بنائی گئی ہے، زیر زمین پانی استعال کیلئے لائسنس جاری کرنے کے سلسلے میں سی ای او واٹر کارپوریشن انجینئر سید صلاح الدین احمد نے پانچ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جس کے کنوینر اویس ملک ہونگے جبکہ باقی ارکان میں محمد دلاور جعفری، محمد خالد فاروقی، مرزا عبید الرحمن اور سید حسنین عباس شامل ہیں، زیر زمین پانی نکالنے کا لائسنس حاصل کرنے والے خواہشمند لائسنس کے حصول کیلئے اپنے متعلقہ انڈسٹریل اسٹیٹ کے چیئرمین یا صدر کے ذریعے سی ای او واٹر کارپوریشن کے نام درخواست دیں گے، جس کے بعد تشکیل دی گئی کمیٹی درخواست کا مکمل جائزہ لیکر لائسنس کا اجراء یا درخواست مسترد کرنے کی مجاز ہوگی، نئے قانون کے مطابق پانی چوری یا غیر قانونی فروخت کے ریکارڈ کے حامل افراد کو لائسنس سب سوائل واٹر ریگولیشن ایکٹ 2018 کے تحت منسوخ کیا جائے گا، ،نئے مسودے میں کسی بھی قسم کی بورنگ واٹر کارپوریشن کی کنڈیوٹ، بلک لائن، ریزروائر اور پمپنگ اسٹیشن سے 330 فٹ سے کم فاصلے پر رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی، بورنگ اور ٹیوب ویل 24 انچ ڈایا انچ سے زائد کے نہیں ہونگے، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرتے ہوئے انکا لائسنس فوری طور پر منسوخ کیا جائے گا، اس کے علاؤہ پانی کی چوری یا غیر قانونی پانی کی فروخت ثابت ہونے پر واٹر کارپوریشن لائسنس ہولڈر پر 50 لاکھ روپے جرمانہ عائد کر سکے گا، اس ضمن میں سی ای او واٹر کارپوریشن کا کہنا تھا کہ اس نئے قانون کا بنیادی مقصد صنعتی علاقوں میں سب سوائل واٹر کے نام واٹر کارپوریشن کی لائنوں سے شہریوں کے حصے کا پانی چوری کرنے والوں کو قانون کے دائرے میں لاکر ان سے سرکاری آمدنی کو یقینی بنانا ہے اور اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد نا صرف واٹر کارپوریشن کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ شہریوں کے حصے کا پانی چوری کا بھی خاتمہ بھی ہوگا، انکا مزید کہنا تھا کہ شہریوں کو پانی کی منصفانہ تقسیم کیلئے واٹر کارپوریشن کی نئی انتظامیہ کی جانب سے بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں اور اس ضمن میں کوئی غفلت برداشت نہیں جائے گی۔