• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران جب چاہیں وکلا سے ملیں، سپریم کورٹ کا نیب ترامیم کیس کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم، ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی

اسلام آباد(رانامسعود/ایجنسیاں)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو نیب ترامیم کیس کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم جب چاہیں اپنے وکلاء سے مل سکتے ہیں ‘بنچ نے مقدمے کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست چار ایک کے تناسب سے مسترد کردی‘چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریما رکس دیئے کہ ججوں میں کوئی کالی بھیڑ نہیںاور اگر کوئی ہے تو چیف ایگزیکٹیو (وزیر اعظم ) انکے خلاف ریفرنس دائر کریں‘ججز کالی بھیڑیں نہیں بلکہ بھڑ(بمبل بی )ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ وزیر اعظم نے حاضر سروس ججز کو کالی بھیڑیں نہیں کہا‘دوران سماعت عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک اڈیالہ جیل راولپنڈی سے عدالت میں پیش کیا گیا‘اس موقع پر ان کا کہناتھاکہ مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی ‘جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ پارلیمنٹ کا معاملہ ہے اورپارلیمنٹ اپنا مسئلہ خود حل کرے‘عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی ۔ تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم سے متعلق حکومتی اپیلوں پر سماعت جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی ۔دوران سماعت عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ 8فروری کو ملک میں بہت بڑا ڈاکا مارا گیا ہے،ملک میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ‘نیب کیس عظیم قومی مفاد کا معاملہ ہے ،میں اس مقدمہ سے متعلق آدھ گھنٹہ بات کرنا چاہتاہوں لیکن نہ تو مقدمہ کے ریکارڈ تک میری رسائی ہے اور نہ ہی مجھے اپنے وکلاء سے ملنے دیا جارہا ہے‘عدالت نے آفس کو کیس کا متعلقہ ریکارڈ خواجہ حارث کے ذریعے عمران خان کو فراہم کرنے کی ہدایت کی،عدالت نے قرار دیا کہ خواجہ حارث اور ان کی ٹیم کے دو ارکان جب چاہیں عمران خان سے جیل میں جاکر ملاقات کرسکتے ہیں ‘دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ خواجہ حارث ہی کو قید میں نہ ڈال دیا جائے جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے، دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے متعلق وزیر اعظم کے ایک حالیہ بیان کا معاملہ اٹھایاتو اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ وہ بیان موجودہ ججوں سے متعلق نہیں تھا ،جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریما رکس یے کہ ججوں میں کوئی کالی بھیڑ نہیںہے اور اگر کوئی ہے تو چیف ایگزیکٹیو(وزیر اعظم ) ان کے خلاف ریفرنس دائر کریں،فاضل جج نے مزید کہاکہ جج کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں ،جس پر ایک بار پھر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا ‘عمران خان نے عام انتخابات2024کے نتائج ،پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملہ پر بھی بات شروع کی تو چیف جسٹس نے روکتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں یہ باتیں نہ کریں ہم اس وقت صرف نیب ایکٹ میں ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کررہے ہیں،جس پرعمران خان نے کہا کہ سر ہماری دو درخواستیںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق سپریم کورٹ میں موجود ہیں ،وہ سن لیں،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان درخواستوں میں آپ کا وکیل کون ہے؟ تو انہوںنے بتایا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا وہ ایک سینئروکیل ہیں، انہیں معلوم ہے کہ مقدمات کیسے سماعت کے لیے مقرر ہوتے ہیں ، انہوںنے ملک سے باہر جانا تھا،اس لئے ایک مقدمہ میں ان کی مرضی کی تاریخ دی گئی ہے،جس پرعمران خان نے کہا چیف جسٹس صاحب جیل میں ون ونڈو آپریشن ہے جس کو ایک کرنل صاحب چلاتے ہیں، اپ ان کو آرڈر کریں کہ مجھے ،میری قانونی ٹیم سے ملاقات کروانے دیں، وہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات نہیں کرنے دیتے ہیں ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرڈر کردیں گے کہ خواجہ حارث جب بھی آپ سے ملنا چاہیں تو وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ مل سکیں گے ،چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف دو تین وکلاء ہی کو لے کر جیل جائیے گا ،پچاس لوگ نہ لے کر جانا ،کوشش کریں کہ اس سہولت کا غلط استعمال نہ ہو،آئندہ عدالتی ہفتہ کے دوران بھی ساڑھے گیارہ بجے ہی اس کیس کی دوبارہ سماعت ہوگی ،تاہم ججوں کی دستیابی کے مطابق ہی دی جائے گی،بعد ازاں چیف جسٹس نے حکمنامہ لکھوایا کہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اٹارنی جنرل نے انہی کے دلائل اپنا لیے ہیں ‘ایڈوکیٹ جنرل حکومت خیبر پختونخواہ روسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیا کہ کے پی حکومت نے کیس کی لائیو اسٹریمنگ کے حوالے سے متفرق درخواست دائر کی تھی ،انہوںنے عدالت سے کیس کی کارروائی براہ راست دکھانے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ یہ نیب قانون میں ترامیم کا ٹیکنیکل معاملہ ہے ،ہم بنیادی حقوق کے معاملات سے متعلق مقدمات کی سماعت براہ راست دکھاتے ہیں ،جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ مقدمہ پہلے بھی لائیو دکھایا جاتا تھا تو اب بھی سماعت لائیو ہونی چاہیے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل نے کہاکہ یہ بھی عوامی مفاد اور دلچسپی کا معاملہ ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ایک ٹیکنیکل معاملہ ہے اس میں عوامی مفاد کا سوال نہیں ہے ۔

اہم خبریں سے مزید