کراچی (ٹی وی رپورٹ ) جیو کے پروگرام ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ “ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑنے کہا ہے کہ عمران خان ریاست مخالف جب بات کرتے ہیں اس پر جب ردعمل آتا ہے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ، عمران خان اگر جیل میں ہیں تو انہوں نے مہدی حسن کو کیسے انٹرویو دے دیا،سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا سقوط ڈھاکہ پر جو موقف ہے اس موقف کے بارے میں ان کی طرف سے خاموشی ہوگئی تھی جب وہ حکومت میں آگئے تھے، ایک دفعہ پاکستان کی کسی عدالت میں اس پر بحث ہو ہی جائے کہ1971ء کا فوجی آپریشن صحیح تھا یا غلط تھا۔ یہ بھی موازنہ ہونا چاہئے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات کیا تھے۔ آج کے پاکستان اور 1971ء کے پاکستان میں کیا فرق ہے،میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے ایکس ہینڈل سے 26 مئی کو1971 ء کے واقعات اور شیخ مجیب الرحمٰن سے متعلق کی گئی ویڈیوپوسٹ کے بعد تحریک انصاف مزید مشکل میں پھنس گئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑنے کہا کہ مہدی حسن دنیا میں بڑے مقبول صحافی ہیں اکثر اسلامو فوبیا کو کاؤنٹر کرتے نظر آتے ہیں۔انہوں نے ایک سیاسی اسٹوری شائع کی اور عمران خان کے انٹرویو کے طو ر پر کی۔آپ والی لاجک اگر میں وہاں اپلائی کروں کہ عمران خان اگر جیل میں ہیں تو انہوں نے مہدی حسن کو کیسے انٹرویو دے دیا۔اس انٹرویو میں بھی تضادات ہیں کہ ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے حالانکہ 7 سے8 سیل ان کے استعمال میں ہیں۔بائیسکل ہے ، واکنگ گیلری ہے ، ڈاکٹر ہے ، کک ہے، کچن ہے ، شاہانہ واش روم تعمیر کیاگیا ہے۔تمام تر سہولتیں میسر ہیں ۔اس آرٹیکل میں مہدی حسن نے بھی اپنی ساکھ شک میں ڈالی یہ لکھ کر کہ ڈیتھ سیل ہے ۔جو چیز پسند نہ آئے کہہ دو ملک میں نہیں بندہ یہ باہر بیٹھے کسی شخص نے کیا تھا۔یہ تو نظر آرہا ہے کہ قانونی کارروائی سے بچنے کے لئے ہے۔کیا ماضی کے اندر یہ نہیں کہتے رہے کہ میں اقتدار میں نہیں رہاتو پاکستان ٹوٹ جائے گا۔کیا ا ن کے لوگ یہ نہیں کہتے رہے کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں۔کیا شہدا کی یادگاروں کو ان کے لوگوں نے مسمار نہیں کیا۔کیا کور کمانڈر ہاؤس لاہور جناح ہاؤس کے باہر ان کی تینوں بہنیں اور ان کا بھانجا موجود نہیں تھے۔ کیا ان کی پارٹی کے تمام لوگ اس حوالے سے بات نہیں کرتے رہے ۔ ایک بیانیہ چلانے کی کوشش کی گئی اور امید کی گئی کہ رسپانس آجائے گامگر رد عمل الٹا آگیا۔اب اپنی قبر کھودی ہے اب اس سے نکلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس طرح کی بات نہیں کہ ویری فائڈ اکاؤنٹ کوئی بھی امریکا میں بیٹھا بندہ کردیتا ہے۔یہ ذمہ داری لینا ہوگی بچوں کا کھیل تو نہیں ہے۔یہ شروع سے پالیسی ہے جو قول و فعل کا تضاد ہے آدھی چیزوں کواون کرتے ہیں آدھی کو نہیں کرتے۔آدھی پارٹی کہتی ہے یہ ٹھیک ہے آدھی پارٹی کہتی ہے غلط ہے۔ریاست مخالف جب بات کرتے ہیں اس پر جب ردعمل آتا ہے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔اگر یہ اس کو اون کررہے ہیں پھر تحقیقات کا تو سامنا کرنا پڑے گا۔ نہیں بھی اون کرتے تحقیقات ہوں گی دیکھا جائے گا یہ پیغام کس نے کس کو دیا۔جو ٹوئٹ کرنے والا شخص ہے اس سے پوچھ گچھ تو ہوگی کہ تمہیں کس نے کہا تھا کہ تم یہ ٹوئٹ کرو کہاں سے پیغام آیا تھا۔