• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
سب سے پہلے چاند کا دیدار کرنے والوں کو عید مبارک ، حج کا فریضہ ادا کرنے والوں کو عید مبارک، غرباء کو خوشیوں میں شامل کرنے والوں کو عید مبارک، یتیموں کے حقوق کا خیال رکھنے والوں کو عید مبارک، مجبوروں کی زازی پر کان دھرنے والوں کو عید مبارک، ہر قسم کے حقوق العباد اداکرنے والوں کو عید مبارک، عید کے جانوروں کا گوشت سنت کے مطابق تقسیم کرنے والوں کو عید مبارک، سنت ابراہیمی کی اہمیت سمجھنے والوں کو عیدمبارک ، اللہ کی اطاعت کے خوگروں کو عید مبارک ، حلیم و بردبار لوگوں کو عیدمبارک، خشوع و خضوع سے عبادت گزاروں کو عید مبارک ، نمازوں کے پابند لوگوں کو عید مبارک ، دن رات کی تنہائی میں خدا کو دوست رکھنے والوںکو عید مبارک، خدا کے قہر اور جہنم کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرنے والوں کو عید مبارک،لم یلد ولم یولد پر ایمان لانے والوں کو عید مبارک، خدا کی صفات بیان کرنے والوں کو عید مبارک ، گناہوں کی معافی میں گریہ زاری کرنے والوں کو عید مبارک ، توبہ و استغفار کرنے والوں کو عید مبارک، گناہ صغیرہ و کبیرہ سے باز رہنے وا لے لوگوں کو عید مبارک، صراط مستقیم پر چلنے والوں کو عید مبارک، اہل زمین و فلک کے ستاروں کو عید مبارک، عید مبارک ، عید مبارک، عید مبارکباد ہر عبادت و حقوق کی بجا آوری کے بعد عید منانا روحانی خوشی کی بات ہے۔ مگر کچھ عید کی خوشیاںغموں کے بعد آتی ہیں تو انسان تذبذب کاشکاررہتے ہیں کہ عید منائیں یا پھر غموں کی چادر اوڑھے رکھیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عید تو بہر حال ایک خوشی اور شادمانی کے احساس کا نام ہے۔عید دن اظہار مسرت دینی شعائر میں سے ہے عید منائی ضرور جائےگی مگرسادگی سے منانا بھی ایک مناسب سا عمل ہےعیدبھلے خوشیاں بانٹنے کا نام ہے مگر یہ ہمدردی اور صلہ رحمی کا دن بھی ہے۔ دنیا بھر کے مظلوم و بے بس مسلمانوں سے اظہاریکجہتی کا دن بھی ہے بھائی چارے اور امن قائم کرنابھی ہے۔ایک دوسرے کو عید مبارک تو دیجئے مگر ہم اپنے فلسطینی بھائی بندوں کیسے بھول جائیں کہ جن کے غم و ستم ہر دم ہمارے ساتھ ہیں بلکہ جہاں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو، ہم دل سے ان کے غم میں شریک ہیں بھلے ہی آج کے اورکل کے علماء سادگی سے ہی عید منانے کیلئے کہتے ہیں مگر پھر بھی غم میں ہیں۔
کل بھی شہر غزہ شہر زندان تھا
آج بھی ہم ہی مقتل میں مطلوب ہیں
وہ فلسطین ہویا کہ کشمیر ہو
ایک مدت ہوئی دونوں معتوب ہیں
عید کی خوشی روحانی مسرت ومبارکباد اپنی جگہ مگرہم کیسے اور کس دل سے ظلم وجبر کے شکار لوگوں کو مبارک باددے سکتے ہیں؟اسرائیلی عقوبت خانوں میں شیطانیت اورقہر کا بازارگرم ہے اور آئے روز اسرائیلی زندانوں میں قیدیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ پھرقیدیوں پر مظالم کی تمام حدیں پار ہوچکی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں شہید اورپابند سلامل قیدیوں کو بھوکاررکھاجاتا ہے۔ انہیں اذیتیں دینا اور ان کےزخموں کو مزیدگہرے کرنا،جسمانی جبر و تشد،جسمانی اور نفسیاتی ازیتیں ،فاقہ کشی ،غیرانسانی اور ذلت آمیز سلوک اورانتظامی حراست کے ذریعے بغیرکسی جرم وگناہ کے حراست میںرکھنا۔ایسی غیرانسانی حرکات بغیرکسی خوف کے جاری ہیں ۔یہ تو جبری تشدد قیدیوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے پھرجو جنگ جاری ہے اس کے بارے میں بیان کرکے خوف و دہشت پھیل جاتی ہے ۔ایسے غموں کے شکار لوگوں کوبھی عید تومنانا ہی پڑے گی ۔
اسی لئے بھی لہوسے میںغمگین ہوں 
کوئی یورپ نہیںمیں فلسطین ہوں 
مجھ پربارود کی کھل کے بارش کرو
میرے وارث نہیں ہیں میں غمگین ہوں 
آج ہم آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں نہیں کھول رہےاور ان کے قتل پر ستاون ممالک خاموش ہیں ۔دل دکھتا ہے یہ سوچ کرکہ نام صرف رہ گیا ہے فلسطین کا مگر وہاں پربسنے والے تو لگتا ہے ختم ہی ہوگئے ہیں  منہدم عمارات کے نیچے کئی بچوں کی لاشیں چھپی ہوئی ہیں اس قدر گولیاں دشمن چلاکرلاشوں کے ڈھیر لگادیتا ہے ذراتصور کیجئے ۔اس ہولناک سین جہاں لاشیں بے پناہ ہیں اور نمازجنازہ پڑھنے والوں کی تعداد کچھ بھی نہیں اور نہ ایک جنازہ ہوتا ہے اور نمازجنازہ پڑھنے والوں کی کثیر تعداد کچھ بھی نہیں !۔ورنہ ایک جنازہ ہوتا ہے اور نمازجنازہ پڑھنے والوں کی کثیرتعداد ہوتی ہے کہیں تویہ بھی دیکھاگیا ہے کہ بے پناہ لاشوں کواور خاندان کوایک ہی کفن پہنادیاگیا۔تنہا سافلسطین یہ کہتا ہے کہ
دکھ مجھے یہ نہیںہے کہ اکیلاہوں میں
دکھ ہے دشمن کے ساتھی وفادارہیں 
ایسے حالات میںاہل فلسطین کے غم مزید بڑھ جاتے ہیں جب مسلمان ہی مسلمان کی مدد کونہ آئے اور ان ظالم دشمنوں کا ساتھ دے جو ظلم و جبر میںبہت آگے ہیں ۔لندن میں فلسطین کے حق میں خوب احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں مگرکچھ ممالک طاقتور ہوتے ہوئے بھی ان کاساتھ نہیں دے رہے ہیں ۔عیدمبارک ،اہل فلسطین
یورپ سے سے مزید