کراچی (عبدالماجد بھٹی) ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امریکا کے بعد بھارت کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹ کی شکست بعد پی سی بی چیئرمین محسن نقوی کا ایک جملہ میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ سامنے آیا کہ پاکستان ٹیم چھوٹی سرجری سے ٹھیک نہ ہوسکی اب بڑی سرجری کرنا پڑے گی۔ ٹیم جب ورلڈ کپ سے باہر ہوئی تو سرجری کیلئے ملک بھر سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ نمائندہ جنگ نے جب پی سی بی کے ایک اعلٰی افسر سے رابطہ کرکے دریافت کیا کہ بڑی سرجری کب شروع ہورہی ہے تو افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر دعوی کیا کہ سرجری کی با ت میڈیا کہ اختراع ہے لیکن پاکستان ٹیم کو بہتر بنانے کیلئے یقینی طور پر سخت فیصلے کئے جائیں گے۔ محسن نقوی نے کسی بھی موقع پر اپنی زبان سے سرجری کا لفظ ادا نہیں کیا تھا۔ تاہم حیران کن طور پر اس کی تردید بھی نہیں کی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین بورڈ کے دست راست کی حیثیت سے پاکستان ٹیم کے ساتھ رہنے والے وہاب ریاض نئی سلیکشن کمیٹی میں چیئرمین کے عہدے کیلئے مضبوط امیدوار ہیں ، امکان ہے کہ وہ بدستور پاو ر کوریڈور کا حصہ ہوں گے۔وہ اس وقت سات رکنی سلیکشن کا حصہ اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے سنیئر منیجر ہیں، ذرائع کا کہنا ہے سلیکشن کمیٹی کا سائز چھوٹا کرکے کچھ اراکین کو رخصت کردیا جائے گا۔ سلیکشن کمیٹی کو نئے سینٹرل کنٹریکٹ کو حتمی شکل دینا ہے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان اے کٹیگری میں جگہ برقرار نہیں رکھ سکیں گے ، کھلاڑیوں نے سابق پی سی بی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر تین سال کیلئے معاوضوں میں اضافہ کرادیا تھا ۔ معاہدے کے مطابق دوسرے سال بھی سینٹرل کنٹریکٹ کی رقم کم نہیں ہوگی البتہ خراب کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو کٹیگری میں کمی کردی جائے گی۔ اگلے ہفتے چیئرمین پریس کانفرنس میں مستقبل کے روڈ میپ کا اعلان کریں گے۔ ذمے دار ذرائع کا کہنا ہے کہ 24جون سے کراچی میں بنگلہ دیش کی سیریز اور پاکستان اے ٹیم کے لئے کیمپ لگایا جارہا ہے جس کی نگرانی ریڈ بال کے آسٹریلوی ہیڈ کوچ جیسن گلسپی کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شان مسعود ٹیسٹ میچوں کے کپتان ہوں گے، بابر اعظم کو بطور بیٹر موقع ملے گا البتہ محمد رضوان کو جگہ برقرار رکھنا مشکل ہے۔ ذرائع کے مطابق تبدیلیاں کرتے وقت گیری کرسٹن ، بابر اعظم کی رپورٹس کا جائزہ لیا جائے گا۔ گیری کرسٹین نے لوڈر ہل اسٹیڈیم کے ڈریسنگ روم میں ٹیم میٹنگ میں جو کچھ کہا اور جو کچھ میڈیا میں رپورٹ ہوا اس کا ایک ایک حرف درست ہے۔ بابر اعظم خود ورلڈ کپ میں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے لیکن ان کو کچھ سنیئر کھلاڑیوں سے شکوہ ہے جو توقع کے مطابق کارکردگی نہ دکھا سکے وہ ان تمام باتوں کا ذکر اپنی رپورٹ میں کریں گے۔