کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹرشیری رحمان نے کہا کہ عزم استحکام دہشتگردی کے خلاف ایک آپریشن ہے،پیپلز پارٹی کا ایک ہی موقف ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی ہماری سرزمین سے ختم کی جائے، میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بیس برسوں میں مذاکرات اور آپریشن اس لیے ناکام ہوتے رہے کیوں کہ ریاست پاکستان کی پالیسی ڈبل گیم پر مبنی تھی۔میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سیکورٹی سے متعلق چین کی تشویش کے بعد حکومت پاکستان حرکت میں آئی متحدہ عرب امارات میں افغان طالبان کے اہم رہنما سے ٹی ٹی پی کے مسئلے پر پاکستانی اہم شخصیت کی ملاقات ہوئی لیکن شاید وہ بے نتیجہ ثابت ہوئی جس کی وجہ سے حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کی فائلوں سے گرد ہٹانی پڑی لمبے عرصے بعد اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے عزم استحکام کے نام سے ایک نئے ہمہ گیر مہم کے آغا زکا فیصلہ ہوا حکومت نے غلطی یہ کی کہ عزم استحکام کے ساتھ آپریشن کا لفظ بھی لگا دیا اور چونکہ لوگوں کو علم ہے کہ ہر پختون ملٹری کے لفظ سے الرجک ہے اس لیے جے یو آئی، پی ٹی آئی اور اے ین پی اور کئی دیگر جماعتوں نے مخالفت کی جس کی وجہ سے وزیراعظم نے وضاحت کی کہ کوئی نیا آپریشن نہیں ہور ہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ مسئلے کا حل مذاکرات ہیں آپریشن سے نہ کل مسئلہ حل ہوا تھا نہ آج ہوگا۔آج ایمل ولی خان جیسے لوگ یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ سیکورٹی فورسز عسکریت پسندوں کی سرکوبی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔حالانکہ ہم ستر ہزار شہادتیں بھی دے چکے ہیں۔ اگر ایک درجن آپریشن ہوئے ہیں تو دوسری طرف ٹی ٹی پی سے معاہدے بھی بہت ہوئے ہیں۔ان بیس برسوں میں مذاکرات اور آپریشن اس لیے ناکام ہوتے رہے کیوں کہ ریاست پاکستان کی پالیسی ڈبل گیم پر مبنی تھی دوسری مصیبت یہ رہی کہ ماضی میں کبھی کُل کے خلاف آپریشن نہیں ہوا بلکہ جز کے خلاف آپریشن ہوتا رہا۔ایک جگہ آپریشن ہوتا دوسری جگہ جنگ بندی ہوتی۔ اسی طرح مذاکرات بھی ہمیشہ جز کے ساتھ ہوتے رہے ہیں۔ان مذاکرات کی ناکامی اس وجہ سے بھی ہوتی تھی کہ کوئی گارنٹر نہیں ہوتے تھے اب اگر مذاکرات ہوں گے تو امارات اسلامی افغانستان کو بطور گارنٹیئر شامل کیا جاسکتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں اس وقت مذاکرات کی فضا سازگار نہیں ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں جتنی ساز گار آج ہے اس سے پہلے نہیں تھی۔اس وقت تحریک طالبان ایک قیادت تلے متحدہوچکی ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کا انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ کون سے لوگوں کے ذریعے اور کس وقت کیے جاتے ہیں س لیے طالبان کے ہاں قدر و منزلت رکھنے والے پختونخوں کا ایک جرگہ بنایا جائے اور وہ امارات اسلامی کے ذریعے براہ راست ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرے۔