• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈ پارک … وجاہت علی خان
جنگ کرو ان لوگوں سے جو خُدا اور یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور ان باتوں سے نہیں رکتے جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ایسے لوگوں سے اس وقت تک لڑو جب تک وہ شکست خوردہ ہو کر جزیہ ادا نہ کریں۔ (سورہ التوبہ) ۔اس آیت کی رو سے مسلمان وہی ہے جو مجاہد بھی ہو اور جہاد بالسیف پر یقین بھی رکھتا ہو،اس کا فرض ہے کہ غیر مسلموں کو شکست دے کر انہیں اپنا جزیہ گزار بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اسلام کو دین غالب قرار دیا ہے۔ اصول جہاد پر عمل پیرا ہوئے بغیر دین اسلام غالب نہیں رہ سکتا اس لئے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے ساتھ ہی کسی غیر مسلمان حاکم کی وفاداری کا دم بھرے اور اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگے نہ وہ مسلمان ہے اور نہ مجاہد، میرا صحافی دوست انعام سہگل بضد ہے کہ اس قسم کی مثالیں جاری گلوبل ورلڈ اور بڑھتی ہوئی سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں آؤٹ آف فیشن ہو چکی ہیں لیکن اس ضمن میں میرا استدلال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس قسم کے معاملات سے پہلوتہی کرنے کی بجائے ان کا سیر حاصل اور سمجھ میں آنے والا مثبت جواب دینا چاہئے۔ کیا یہ حقیقت بھی آؤٹ آف فیشن ہو چکی ہے کہ برطانیہ، امریکہ اور یورپ کے تمام ممالک میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں مسلمان شراب کے کاروبار سے منسلک ہیں اور اس سے ہونے والی آمدن سے حج و عمرہ بھی کرتے ہیں، مساجد کو چندہ بھی دیتے ہیں تو کیا اسلامی نقطہ نظر سے یہ سب جائز و حلال ہے، کروڑوں مسلمان سود لیتے بھی ہیں اور دیتے بھی ہیں، یورپی ممالک میں اذان کی آواز مساجد سے باہر نہیں آسکتی، لاؤڈ سپیکر لگانے پر بھی پابندی ہے تو اس سلسلہ میں کیا یہ سب اسلامی ہے، غیر ممالک میں مقیم کروڑوں مسلمانوں کے بچے مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کلچر عام ہے، کروڑوں مسلمان برطانوی،امریکی اور یورپی شہریت حاصل کرنے کیلئے ان حکومتوں اور مملکتوں سے وفاداری کا حلف دیتے ہیں چنانچہ اس ضمن میں دین اسلام کیا راستہ دکھاتا ہے، میں برطانیہ میں رہنے والے درجنوں ایسے پاکستانی مسلمانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اسائلم لینے کیلئے خود کو احمدی، عیسائی اور ملحد ظاہر کیا۔ ہزاروں مسلمان خواتین ایسی ہیں جو جھوٹ بول کر نامحرم کو محرم ظاہر کر کے حج و عمرہ ادا کرتی ہیں تو کیا اب زمانہ ترقی کر چکا ہے اور یہ جائز ہو گیا لہٰذا ان معاملات پر بات نہیں ہو سکتی، کیا یہ سب اب آؤٹ آف فیشن مثالیں ہیں ، ابھی کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب نے اعلان کیا کہ ملک میں خواتین ڈرائیونگ کر سکتی ہیں، ان پر ملازمت کی بھی کوئی پابندی نہیں ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ فلموں پر بھی پابندی نہیں ہوگی تو کیا یہ سوال اٹھانا بھی آؤٹ آف فیشن ہو چکا ہے کہ سعودی عرب میں پہلے والا اسلام درست تھا یا پابندیاں اٹھانے کے بعد والا اسلام، کیا وہ وقت ایک عرصہ سے ہمارے در پہ دستک نہیں دے رہا کہ ہم مسلمان دو رُخی اور کھچڑی زدہ پالیسی چھوڑ کر اپنی آنے والی نسلوں کو یک رخی صاف ستھری اور فی زمانہ راسخ پالیسی دیں خواہ اپنے دین سے اجتہاد کے زریں اصول کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ گزرے تقریباً 400سال میں روز افزوں ہوتی ہوئی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور ایجادات میں مسلمانوں کا کردار یا حصہ صفر ہے، کیا اس کی واحد وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں دنیا کی ترقی میں سے اپنا حصہ تو پورا چاہئے لیکن ہم سائنسی ایجادات کو حرام قرار دینے میں ایک لمحہ کی دیر نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر آج سے تقریباً 1000 سال پہلے اسلام سائنس و ٹیکنالوجی کے سنہری دور سے گزر رہا تھا اور یورپ تاریکی کے دور میں تھا، بغداد علم و ایجادات کا مرکز تھا، دنیا بھر سے متلاشی علم کی تلاش میں یہاں آتے تھے۔ الجبرا ، ریاضی سائیکالوجی طب اور دیگر علوم میں مسلمان ہر اول دستہ تھا۔ پھر کیا ہوا کہ اچانک یہ سلسلہ رک گیا۔ مغربی تاریخ دانوں کی نظر میں دیگر کئی ایک وجوہ کی طرح اس کی بڑی وجہ امام غزالی کا وہ فتویٰ تھا جس میں انہوں نے کہ نمبروں کے ساتھ کھیلنا یعنی ریاضی کا علم شیطانی عمل ہے ، حالانکہ آج سب جانتے ہیں کہ سائنس سے ریاضی(Math) کو تو نکالا ہی نہیں جا سکتا چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ امام غزالیؒ کے اس فتویٰ نے اسلام کو سائنسی ایجادات سے دور کر کے دور جہالت میں دھکیل دیا جب کہ مسلمانوں کی پہچان ایجادات وریسرچ میں ہوتی تھی اور وہ ان علوم کے چیمپئن شمار ہوتے تھے تو کیا یہ درست نہیں کہ اسلام آج تک اس حادثے سے باہر نہیں نکل سکا۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ایک اور حادثہ ہوا جب 1483ء میں عثمانی سلطنت کے آٹھویں سلطان بایزید ثانی جو اپنے والد محمد فاتح کے انتقال کے بعد تخت نشین ہوا، نے اُس وقت کے کسی شیخ الاسلام کے کہنے پر ایک نئی اور قابل قدر سائنسی ایجاد پرنٹنگ پریس پر پابندی عائد کر دی اور اسے حرام قرار دیتے ہوئے پرنٹنگ پریس یا اشاعت کے ذمہ دار کی سزا موت مقرر کی۔ چلیں ایکبار پھر مسلمان اور اسلام تقریباً 250سال تک پرنٹنگ مشین اور اس کے ثمرات سے محروم رہا اور یورپ تعمیر و ترقی میں جست پہ جست لگاتا رہا لہٰذا کیا مسلمانوں کی اس محرومی کے ذمہ داروں اور وجوہات پر سوال کرنا بھی آؤٹ آف فیشن مثال ہے؟ یورپی تاریخ دان اور سائنس دان بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرتے کہ ساتویں سے 14ویں صدی عیسویں تک مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں نے علوم دنیا کے تقریباً سبھی علوم پر قابل قدر کام کیا ہے وہ خلافت عباسیہ کے دور میں خلیفہ ہارون الرشید کے تحقیقاتی اداروں کے سائنسی تجربات اور کام کی ستائش بھی کرتے ہیں۔ وہ اس دور کے عظیم سائنسدان ابراہیم الغزاری کی علم فلکیات پر خدمات کو بھی سراہتے ہیں کہ کس طرح اس دور میں انہوں نے ہندوستان کی فلکیاتی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا اور یہ کتاب 750 میں بیت الحکمہ بغداد میں ’’ الربیع علی العرب‘‘ کے نام سے تکمیل تک پہنچی۔ جابر بن حیان، محمد الفرازی، ابن ترک الاصمعی، ابوبکر الرازی، ابن الہیشم ،البیرونی ابن بطوطہ، ابن سینا، عمر خیال غزالی، طفیل القیسی الادریسی الجزاری، نصیر الدین طوسی، ابن الفنیس، ابن خلدون ابوالحسن سمیت بیسیوں دیگر مسلمان فقہ، طبیب ریاضی و الجبرا دان اور سائنس دان ایسے تھے جن کی دی گئی تھیوریز پر آج کی جدید سائنس کی بنیاد قائم ہے لیکن صد افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ ترین دور میں پاکستان سمیت دیگر مسلمان ملکوں میں سائنس سے دوری بدستور قائم ہے۔ اس کی صریح وجہ یقیناً آج بھی ہمارے معاشروں میں تھیوکریسی کا بے مہار بڑھتا ہو نفوذ و رسوخ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو 1000 سال پہلے والے مسلمانوں کے سنہرے دور کی بجائے علم و حکمت سے عاری دور تاریک میں دھکیل رہا ہے 1900ء سے لے 2024ء تک 124 سالوں میں ذرا جھانک کر دیکھیں اور تقابلی جائزہ تو لیں کہ یہودیوں اور مسلمانوں نے سائنس کے شعبہ میں کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیئے اور کتنے نوبل پرائز حاصل کئے، یہودیوں کی دنیا میں کُل آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ نہیں لیکن پچھلے سو سال میں انہوں نے سائنس کے شعبہ میں 25فیصد نوبل پرائز حاصل کئے ۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی دنیا میں آبادی ڈیڑھ سو کروڑ سے زیادہ ہے اور اتنی بڑی آبادی کے باوجود پچھلے 100سال میں دو ایک کے سوا اس ضمن میں ہمارا حصہ صفر + صفر ہے۔ جدید سائنس و ایجادات میں مسلمانوں کی شراکت داری بھی زیرو ہے کیونکہ صدیوں سے ہمارا وتیرہ ہے کہ ہر نئی آنے والی ایجاد کو پہلے حرام اور کچھ عرصہ بعد اس کے گُن گانے لگ جاتے ہیں، ابھی کل کی بات ہے جب جہاز ایجاد ہوا تو ہم نے فتویٰ لگا دیا کہ جہاز کا سفر حرام ہے کیونکہ اتنی اونچائی پر جانا قدرت کو للکارنے کے مترادف ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی آیا تو اسے شیطان کی آواز قرار دیا گیا۔ لاؤڈ سپیکر کو بھی حرام کہہ کر فتوے لگائے گئے۔ آج بھی بلڈ ٹرا نسمیشن، ماں کے دودھ کا ملک بینک قائم کرنے، اعضاء کی پیوند کاری ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی یا جینیٹک انجینئر نگ وغیرہ کو حرام قرار دیا جارہا ہے۔ اللہ جانے فتاوی باز ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ یونیورس ایکسپلوریشن کوانٹم فزکس، جدید میڈیسنʼ علاج کے نت نئے طریقوں انسانی عمر کو سیکڑوں سال تک بڑھان،کینسر کے علاج و خاتمہ اور ہوشربا قسم کے سائنسی کام ہورہے ہیں لیکن ہمارا ڈھیٹ پن یہ ہے کہ ان تمام ایجادات سے مستفید تو ہونا چاہتے اور ہو بھی رہے ہیں لیکن حرام ہونے کے فتوے بھی دے رہے ہیں۔ اب نوجوان نسل اگر سوال کرے تو کیا ان کے سوالوں کو آؤٹ آف فیشن“ قرار دے کر انہیں چپ کروا دیا جائے۔
یورپ سے سے مزید