کراچی کے شہریوں کو درپیش لاتعداد تکالیف ومسائل میں، سب سے تشویش ناک یہاں آئے روز ہونے والی ڈکیتی و لُوٹ مار کی درجنوں وارداتیں اور ان میں معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہیں۔ اس قسم کی بیش تر وارداتوں میں موٹر سائیکل سوار مسلّح لٹیرے شہریوں سے موبائل فون اور نقدی، جب کہ راہ چلتی خواتین سے پرس اور زیورات چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔
یہ جرائم پیشہ افراد دورانِ واردات معمولی سی مزاحمت پر بھی گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتے۔ اعدادو شمار کا جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران شہرِ قائد میں اسٹریٹ کرائمز میں خوف ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف دسمبر 2023ء میں کراچی میں4,777موٹر سائیکلیں اور 206 گاڑیاں چھینی اور چوری کی گئیں جب کہ2,095 موبائل فونز چھینے گئے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ صرف اس ایک مہینے میں دورانِ مزاحمت 52شہریوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔
اس ضمن میں سی پی ایل سی کے سربراہ، زبیر حبیب کا کہنا ہے کہ’’2023ء میں کراچی میں اسٹریٹ کرائمز میں بے حد اضافہ ہوا اور گزشتہ برس لوٹ مار اور قتل کے تقریباً 90,000 کیسز رپورٹ ہوئے۔ سی پی ایل سی ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء میں 59,138موٹر سائیکلیں اور 2,305گاڑیاں چھینی اور چوری کی گئیں، جب کہ 27,984موبائل فونز گن پوائنٹ پر چھینے گئے اور 645افراد کو قتل کیاگیا۔ اس کے علاوہ بھتّے اور اغوا برائے تاوان کے واقعات بھی 2022ء کی نسبت زیادہ رُونما ہوئے۔ ‘‘
سی پی ایل سی کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہر بھر میں ہونے والے اسٹریٹ کرائمز کے واقعات میں سے صرف 20سے 25فی صد رپورٹ ہوتے ہیں اور کیسز رپورٹ نہ ہونے کی وجوہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ متاثرہ افراد تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے ہی سے ڈرتے ہیں، پھر یہ کہ پولیس رپورٹ درج کروانے والوں کو تھانے کے کئی چکّر لگواتی ہے اور ایف آئی آر درج کرنے کی بہ جائے ایک چِٹ یا لیٹر تھانے کی مُہر لگا کرتھما دیا جاتا ہے۔
پولیس ایسا جرائم کی شرح کم ظاہر کرنے اور اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے کرتی ہے۔ ‘‘ڈکیتی اور چھینا جھپٹی کی وارداتوں کی وجہ سے کراچی کے شہری خوف کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ بعض متاثرہ افراد تو باقاعدہ نفسیاتی مریض بن چُکے ہیں اور اس حد تک خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر ان کے قریب سے کوئی موٹر سائیکل سوار گزرتا ہے، تو سہم جاتے ہیں، کیوں کہ انہیں ہمہ وقت مالی و جانی نقصان کا دھڑکا لگا رہتا ہے، جب کہ بچّوں اور خواتین پر تو ان وارداتوں کے سنگین نفسیاتی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔
دوسری جانب ہماری پولیس کا رویّہ اور طرزِ عمل ایسا ہے کہ ایک عام آدمی رپورٹ درج کروانے کے لیے بھی تھانے جانے سے گھبراتا ہے۔ مزید برآں، عدالتی نظام بھی انتہائی مایوس کُن ہے۔ یعنی اگر کوئی ملزم پکڑا بھی جائے، تو اوّل تو لوگ اس کے خلاف گواہی دینے سے گھبراتے ہیں اور اگر کوئی ہمّت کا مظاہرہ کرہی لے، تو تھانے اور عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے بھگتتے تھک جاتا ہے ، یہاں تک کہ مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ نتیجتاً، گرفتار ہونے والے ڈاکو ایک سے زائد مرتبہ بہ آسانی ضمانت پر رہا ہو کر ایک مرتبہ پھر لُوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی کے شہریوں کو اس عذاب سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مندرجہ ذیل اقدامات کرے۔ ٭ پولیس اور رینجرز کے اسنیپ چیکنگ سسٹم کو جدید انداز میں فعال کیا جائے۔ ٭ پولیس کا ’’فجری نظام‘‘، جو ماضی میں ایس ایچ اوز وغیرہ مجرموں تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے تھے، بحال کیا جائے۔ ٭ زیادہ متاثرہ علاقوں میں فرض شناس، ایمان دار اور مقامی پولیس افسران کو تعینات کیا جائے۔ ٭ اچھی کارکردگی دکھانے والے پولیس افسران اور اہل کاروں کو آؤٹ آف ٹرن ترقّی اور انعامات دیے جائیں۔ ٭ ایف آئی آر کے اندراج کا نظام آسان بنایا جائے۔ ٭ محلّوں اور بازاروں میں زیادہ سے زیادہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں۔ ٭ عدالتیں اسٹریٹ کرائمز میں ملوّث مجرموں کو ضمانت پر آسانی سے رہا نہ کریں۔ ٭ جرائم پیشہ عناصر چھینی گئی موٹر سائیکلز اور گاڑیاں شہر سے باہر لے جا کر فروخت کرتے ہیں۔ لہٰذا، سدِ باب کے لیے منگھوپیر، موچکو، سائٹ، سُپر ہائی وے، گلشنِ معمار، سرجانی ٹاؤن اور سچّل وغیرہ کے علاقوں میں پولیس اور رینجرز مستقل بنیادوں پر آپریشن کریں۔ (مضمون نگار، سابق ڈائریکٹر، کے ڈی اے ہیں)