کراچی (رفیق مانگٹ) برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق بائیڈن کے اصلاحاتی مشیر کا کہنا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ حتمی طاقت پر قبضہ کر رہی ہے۔قانون کے اسکالر لارنس ٹرائب کا کہنا ہے کہ قدامت پسند عدالت کی اکثریت چیک اینڈ بیلنس کے فریم ورک کو تباہ کر رہی ہے۔لارنس ٹرائب نے عدالت کے انتہائی قدامت پسند ججوں پر تنقید کی کہ وہ اپنی اہمیت، صلاحیتوں یا کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کوزیادہ متاثر کن، طاقتور، کامیاب ظاہر کرنے پر فوکس کررہے ہیں۔ جس پر چیک اینڈ بیلنس کو خطرہ ہے۔ ہارورڈ لاء اسکول کے پروفیسر نے کہا کہ جج بنیادی آئینی احاطے سے باہر ہیں۔ عدالت ہمارے پورے قانونی اور سیاسی نظام پر حتمی طاقت سنبھالنے کے مقام پر پہنچ چکی ہے ۔ٹرائب نے سپریم کورٹ پر ووٹنگ اور انسانی حقوق کے حوالے سے پچھلی نصف صدی کی پیش رفت کو منظم طریقے سے پیچھے ہٹانے کا الزام لگایا۔ ا نہوں نے کہا حالیہ برسوں میں عدالت نے تولیدی آزادی، صنفی مساوات، جنسی خود مختاری، نسلی انصاف، پولیس کے ساتھ بدسلوکی اور حکومتی احتساب جیسی پیشرفتوں کو ضائع کیا۔ ہارورڈ کے پروفیسر نے کہا کہ ججوں کی مدت کی حد کے پیچھے اتفاق رائے بڑھ رہا ہے۔ صدور کو وائٹ ہاؤس کی ہر چار سالہ مدت میں سپریم کورٹ میں دو تقرریاں کرنی چاہئیں۔اس کے بعد نئی تقرری 18 سال تک فعال ججز کے طور پر کام کرے گی، اس کے بعد ریٹائرڈ جج کے طور پر تاحیات خدمات انجام دیں گی جو ضرورت پڑنے پر اپنے ساتھی کے لیے بھرتی کر سکتے ہیں۔ ایسا دو درجے کا نظام نچلی عدالتوں میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے پروان چڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہادنیا کی کوئی اور عدالت عظمیٰ اتنے کم لوگوں کو اتنی دیر یعنی مرتے دم تک اتنی طاقت نہیں دیتی۔ قانون کے پروفیسر نے موجودہ نظام کو ناقابل برداشت قرار دیا۔ اخلاقی اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے کوئی بیرونی طریقہ کار نہیں تھا۔ٹرائب نے کہا کہ اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ ’’قانون سے بالاتر کوئی شخص نہیں ‘‘ ترمیم ہے جس سے واضح ہو جائے گا کہ صدر سمیت کوئی بھی اپنے عہدے کی وجہ سےاستثنیٰ کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ٹرائب نے کہا کہ وہ صدر کے معافی کے اختیارات کو محدود کرنے والی ایک ترمیم کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ اوول آفس کا ایک لاقانونیت والا اپنے آپ کو یا کسی اور کو معاف نہ کر سکے جسے انہوں نے اپنی طرف سے جرائم کرنے کی ترغیب دی ہو۔