• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک چلانا ہے تو اداروں کو آزاد رکھنا ہوگا، علی احمد کرد

کوئٹہ (پ ر) معروف قانون دان اور وکیل رہنماء علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا 12جولائی کا فیصلہ بعض سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں پر ایک شہاب ثاقب کی طرح گرا ہے مختلف متاثرہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس کی تشریح اور اس پر رائے زنی تو سمجھ آتی ہے مگر الیکشن کمیشن جو ہر حال میں مکمل طور پر ا س فیصلے پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے اس نے بھی کھلے الفاظ میں سپریم کورٹ سے کئی امور پر تشریحات مانگی ہیں جو اس ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے حالانکہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہونے کی بناء پربغیر کسی چوں چراں کے سپریم کورٹ کے حکم کی پابندی کی ذمہ دار ہے مگر اپنی اس ذمہ داری کو پوری طرح سمجھتے ہوئے بھی اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی اوپر سے گدلاآرہا ہے اگر کچھ دیر کیلئے یہ تصور بھی کر لیا جائے کہ پانچ ججز کافیصلہ اکثریتی فیصلہ ہوتا تو کیا الیکشن کمیشن جس کے فیصلے میں کئی ا یسی خامیاں موجود تھی جس کی وجہ سے صاف نظر آرہا تھا کہ الیکشن کمیشن اتنا آزاد نہیں ر ہا کہ جتنا اسے آئین کی رو سے آزاد رکھا گیا ہے تو کیا اس صورت میں بھی الیکشن کمیشن کا یہ منہ زور ر ویہ ہوتا صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ وہ متاثرہ سیاسی جماعتیں بھی جن کے پاس ہر وقت بڑے دماغ والے وکیل موجود رہتے ہیں ان کی حیرانگی بھی قابل دید ہے کہ مکمل فیصلہ ابھی آیا نہیں اور نظر ثانی کی درخواست داخل بھی ہو چکی جس کو سپریم کورٹ رولز 1980ء کے مطابق اعتراض لگاکر واپس کیا جانا تھا مگر بالکل اس کے برخلاف اس نظر ثانی درخواست کو باقاعدہ کارروائی کیلئے ججز کمیٹی کے پاس بھی بھیجا گیا ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ سارا رولا ا س لئے ڈالا گیا کہ ایک بہت ہی بڑے اور اہم ترین آئینی ادارے نے اپنے راستے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ا گر ملک چلانا ہے اور دنیا کے سامنے عزت و احترام کا مقام حاصل کرنا ہے تو اداروں اور لوگوں کو آزاد ہونے کے رویے پر کاربند ہونا پڑے گا جس کی سب سے اعلیٰ مثال صرف دو دن پہلے بنوں میں لاکھوں لوگوں کا امن اور آزاد رہنے کی خواہش کیلئے سڑکوں پر باہر نکلنے کا عمل ہے مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ا من کے مارچ پر بھی گولیاں چلائی گئیں۔
کوئٹہ سے مزید