پشاور( نامہ نگار) افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کے بعد80فیصد لڑکیاں تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ 14لاکھ سے زائد لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے پہلے سکول جانے سے روک دیاگیاہے، افغانستان میں موجود انٹرنیشنل میڈیاکی رپورٹس کے مطابق افغان دنیا کاواحد ملک جہاں طالبان شدت پسندوں نے اگست 2021میں برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک ملک میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کرکے انہیں تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے محروم کررکھا ہے، رپورٹس کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کے انتہاپسندانہ پالیسیوں کے باعث اس وقت 80فیصدلڑکیاں سکول سے باہر ہیں، جبکہ طالبان حکومت لاکھوں لڑکیوں اور خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لئے قوانین اور پالیسیوں کا استعمال کرتے ہیں، انہی انتہا پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے افغان خواتین اور لڑکیاں اسکول جانے، دفاتر میں کام کرنے یا عوامی زندگی میں حصہ لینے کے حق سے محروم ہیں۔ رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے اپنے بنیادی حقوق غصب کرنے اور سنگین حالات کے باوجود افغانستان میں خواتین اور لڑکیاں نہ صرف خفیہ طور پر سیکھنے کی کوشش کرتی ہین بلکہ طالبان کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرکے مزاحمت بھی کر رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستا ن میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کےتقریبا ڈھائی سال مکمل ہوچکے ہیں ۔ انٹرنیشنل میڈیا کےمطابق بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے مدرسوں اور یہاں تک کہ غیر منظور شدہ اسکولوں کی ریگولیشن مختلف ہوتے ہیں۔