• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا وفاقی وزیر احسن اقبال استعفیٰ دینے پر غور کررہے ہیں؟

اسلام آباد (فخر درانی) گزشتہ چند روز سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر نون لیگ سےتعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے پلاننگ کمیشن احسن اقبال کے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان سے اختلافات کی بنیاد پر مستعفی ہونے کی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں۔

 وفاقی وزیر کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دے رہے لیکن اگر وزیر کو فری ہینڈ نہ دیا گیا اور مداخلت جاری رہی تو وہ یہ وزارت چھوڑ دیں گے اور حکومت میں کوئی اور عہدہ قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ 

رابطہ کرنے پر ڈاکٹر جہانزیب خان نے کہا کہ ’اس مشکل وقت میں ملک کو سوچ کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہم سب مل کر معاشی بحالی اور عام لوگوں کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں‘ ۔ تاہم انہوں نے ان کی طرف اشارہ کردہ مختلف مسائل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسلام آباد میںموجود سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنی لاہور سے لائی ہوئی ایک علیحدہ ٹیم میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس ٹیم کے تمام ارکان ٹیکنوکریٹس ہیں جن کے پاس کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے۔ مزید برآں، شہباز نے وفاقی کابینہ میں نواز شریف کی ٹیم کو دور کر کے اپنی ٹیم بنا لی ہے جو فیصلے کر رہی ہے۔

 نواز شریف کی کابینہ کے زیادہ تر ارکان پہلے ہی وزیر اعظم شہباز شریف کی ٹیم سے باہر ہیں جبکہ موجودہ سیٹ اپ میں شامل ہونے والوں کو وہ لطف نہیں مل رہا جو انہیں پہلے حاصل تھا۔ تاہم وزیراعظم کے دفتر کے ذرائع نواز شریف کی ٹیم کو سائیڈ لائن کرنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہیں۔ 

سیاسی وجوہات کے علاوہ احسن اقبال کی جانب سے استعفے کی افواہوں کے پیچھے کئی عوامل اور رکاوٹیں موجود ہیں۔ احسن اقبال کی جانب سے استعفیٰ دینے پر غور کی پہلی وجہ یہ ہے کہ وزارت میں ہموار فیصلہ سازی میں رکاوٹ موجود ہے۔

 احسن اقبال وزیر برائے منصوبہ بندی اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان کے اقتصادی منصوبہ بندی کے نقطہ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق، جہانزیب خان کمیشن کو روایتی بیوروکریٹک انداز میں چلانے پر یقین رکھتے ہیں، وزارت کے اندر موجود اکانومسٹ گروپ پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، احسن اقبال جامع طرز حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، جس میں بیرونی ماہرین شامل ہیں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، صنعت اور اکیڈمی کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ سب اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دو مختلف نقطہ نظر فیصلہ سازی میں تاخیر کا سبب بن رہے ہیں۔

 ذرائع کے مطابق، دوسری وجہ یہ ہے کہ احسن اقبال 13ویں پانچ سالہ منصوبہ (2024-2029) کو 5Es فریم ورک کے اسٹریٹجک روڈ میپ سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ یہ فریم ورک ملک کی خستہ حال معیشت کو بہتر بنانے اور ملک کے اقتصادی پورٹ فولیو کو 2035 تک ایک ٹریلین ڈالر تک بڑھانے کیلئے طویل اور قلیل مدتی حل تجویز کرتا ہے۔ 

اس مقصد کیلئے ایک مفصل حکمت عملی ’’آئوٹ لُک 2035‘‘ وضع کی گئی تھی، جو اقتصادی منصوبہ بندی کیلئے ایک غیر روایتی انداز پیش کرتی ہے۔ دوسری جانب، ڈپٹی چیئرمین کمیشن کا رویہ روایتی ہے اور وہ کمیشن کو سالانہ اور پانچ سالہ پلان بنانے کے طریقہ کار پر چلانا چاہتے ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈپٹی چیئرمین کا نقطہ نظر احسن اقبال کی تجویز کے برعکس ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ روایتی طریقوں سے موجودہ حکومتوں کیلئے کبھی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ نتیجتاً پاکستان ہمیشہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مدد اور رہنمائی پر مجبور رہا ہے جو طویل مدت میں تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ 

ذرائع کے مطابق تیسری وجہ یہ ہے کہ پلاننگ کمیشن کے وزیر پلاننگ کمیشن کے کام کاج کو بہتر بنانا چاہتے ہیں اور تجربات اور معاشی ماڈلز سے سیکھتے ہوئے عالمی اداروں سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، ڈپٹی چیئرمین ان اصلاحات کے قائل نہیں۔ وہ موجودہ ڈھانچے اور انسانی وسائل پر مکمل انحصار کرتے ہوئے موجودہ فریم ورک کے اندر طرز حکمرانی کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

 چوتھی وجہ یہ ہے کہ 13ویں پانچ سالہ منصوبے کو حتمی شکل دیے جانے کے دوران پی ڈی ایم حکومت کے 26 ماہ کے دوران 5Es فریم ورک اور آئوٹ لک 2035 کی تیاری کی تمام چوتھی وجہ یہ ہے کہ 13ویں پانچ سالہ منصوبے کو حتمی شکل دیے جانے کے دوران پی ڈی ایم حکومت کے 26 ماہ کے دوران 5Es فریم ورک اور آئوٹ لک 2035 کی تیاری کی تمام کوششوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ 

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ مذکورہ اسٹریٹجک دستاویزات میں سے کسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔

 ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پلاننگ کمیشن کے موجودہ ڈپٹی چیئرمین (جنہوں نے عبوری حکومت کے دوران اکانومسٹ گروپ اور وزارت کی انتظامیہ کی مدد سے 13ویں پانچ سالہ پلان کو حتمی شکل دی تھی) نے فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد وزیر احسن اقبال سے مشاورت نہیں کی۔ 

وفاقی وزیر احسن اقبال کی جانب سے سیاسی حکومت کے اسٹریٹجک پلانز اور اسٹڈیز سے ہم آہنگ ہونے کے اصرار کے باوجود ڈپٹی چیئرمین نے قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) سے مشاورت کیے بغیر منظوری حاصل کی۔ 

وزیر کے عوامی بیانات کے مطابق، منصوبہ این ای سی اور وزیراعظم کو منظوری کیلئے پیش کرنے سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ ان کا خیال تھا کہ صرف معیشت کو مستحکم کرنے اور ملک کے اقتصادی پورٹ فولیو کو پائیدار بنیادوں پر بہتر کرنے کی کوشش کی بجائے سیاسی حکومت کو مکمل اونرشپ دینے کیلئے ضروری ہے۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ احسن اقبال کی رائے ہے کہ پلاننگ کمیشن کے موجودہ ڈھانچے میں اصلاحات اور مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وہ وزارت کے اندر اکانومسٹ گروپ، سیکٹر لیڈرز، اور مختلف شعبوں کے ماہرین کے ساتھ مسلسل ذہن سازی کے اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ حال ہی میں، وزارت میں نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن یونٹ (NETU) کے قیام کیلئے ایک اسٹریٹجک کوشش کی گئی۔ یہ یونٹ اقتصادی پالیسیوں کے نفاذ اور معاشی اہداف کے حصول کیلئے مجموعی حکمت عملی کو بہتر بنانے میں حکومت کی مدد کرے گا۔ 

نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن یونٹ کا مقصد اسٹریٹجک کمیونیکیشن کے ذریعے حکومت پاکستان کے ترقیاتی اقدامات کے امکانات کو سامنے لانا ہے۔ اس روڈ میپ میں ترقی کو فروغ دینے، اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے اور قومی ترقی کیلئے ڈائیلاگ کو فروغ دینے کیلئے 11 اہم سرگرمیوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

 اس روڈ میپ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، حکومت جامع ترقی کو فروغ دے گی اور سب کیلئے ایک روشن مستقبل بنائے گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اگر وزیر اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کے درمیان اختلافات دور نہ ہوئے تو حکومت کی معاشی پالیسی سازی کا عمل طویل عرصہ کیلئے متاثر ہو سکتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید