اسلام آباد (رپورٹ :،رانا مسعود حسین ) سپریم کورٹ نےمارگلہ نیشنل پارک میں کاروباری سرگرمیوں سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن اور وائلڈ لائف بورڈ کی چیئر پرسن رعنا سعید کی برطرفی کے احکامات پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے عملدرآمد روک دیاہے ،اٹارنی جنرل کو تمام معاملات وزیر اعظم کے نوٹس میں لانے کی ہدایت کی جبکہ مارگلہ نیشنل پارک میں ہاؤسنگ سوساٹی کی تعمیر سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت 15اگست تک ملتوی کردی ہے.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں ہم تو مارگلہ نیشنل پارک سے ریسٹورنٹس ہٹانے چلے تھےیہاں تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی نکل آئی ہیں ، جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھالاہوا ہے، اٹارنی جنرل کوعلم ہی نہیں ہے کہ چیزیں کیسے ہو رہی ہیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک کے قومی اثاثہ کے کا تحفظ حکم کیا جاری کیا تھااسکے بعد وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیا گیا اور وائلڈ لائف بورڈ کی چیئر پرسن کوعہدہ سے ہی ہٹادیا گیاوزارت داخلہ کا کام تو ملک میں امن وامان کے معاملات کو دیکھنا ہے حکومت کی جانب سے عدالتی احکامات کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہےاقدامات سے لگتا ہے عدالتی فیصلے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہےہم مارگلہ سے ریسٹورنٹ ختم کرنے کے فیصلے پر ہر صورت عملدرآمد کرائینگے،سیکرٹری کابینہ نے وائلڈ لائف بورڈ کی چیئرپرسن کوہٹانے کی سمری وزیر اعظم سے منظورکروائی ہے.
عدالت نے سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کو فوری طلب کرتے ہوئے کیس میں وقفہ کردیا.
دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور سیکرٹری پیش ہوئےسیکرٹری نےموقف اختیار کیا.
انہوں نے مارگلہ نیشنل پارک کا انتظام وزارت داخلہ کے سپرد کرنے کی سمری نہیں بھیجی تھی بلکہ وزیراعظم شہباز شریف نے خود یہ حکم جاری کیا تھا جو میرے آفس تک پہنچایا گیاتھا چیف جسٹس نے کہا آپ نے بطور سیکرٹری وزیر اعظم کو کیوں نہیں بتایا کہ یہ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی ہے وزیراعظم کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ اپنے طور پر ہی کچھ بھی کر دیں، انہیں قواعد بیوروکریٹس نے ہی بتانے ہوتے ہیں چیف جسٹس نے وفاقی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کیاسیکرٹری کابینہ کی جانب سےوزیراعظم صاحب کا لفظ اداکرنے چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا غلامی کی زنجیریں توڑ دیں ، ہم سیکرٹری کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتے ہیں آئینِ کو مذاق بنا دیا گیا ہے کیا نیشنل پارک کی دیکھ بھال کرنا وزارت داخلہ کا کام ہےکیا پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے ملک سے دہشتگردی ختم کر چکے ہیں جو اب پارکوں کا نظام بھی دیکھیں گےاس طرح تو تعلیم و صحت سمیت سب کچھ ہی وزارت داخلہ کو دیدیں.
انہوں نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی سے استفسار کیا وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کا کس نے کہا تھاانہوں نے کہا انکی وزارت نے ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی یہ وزیر اعظم کاہی فیصلہ تھا وزیر اعظم کی کوآرڈی نیٹر رومینہ خورشید عالم نے بورڈ چیئر پرسن کو ہٹانے کا کہا تھا جس پر رومینہ خورشید عالم نے روسٹرم پر آکر کہا میں نے انہیں ہٹانے کا نہیں کہا تھاچیف جسٹس نے کہا کیا کسی نے اوپر سے تو کال نہیں کی تھی یا پھر خلائی مخلوق سے تو کال نہیں آئی تھی کیا نیشنل پارک وزارت داخلہ کے حوالے کیا جانا چاہئے یا نہیں سیکرٹری اور کوآرڈی نیٹر نے اسکی مخالفت کی، چیف جسٹس نے کہا وائلڈ لائف بورڈ کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کیوں کیا گیاہےایک سماعت کے دوران ایک میجر جنرل آئے تھےاسکا نام بتائیں وہ پہلے تو عدالت کو فائلیں ہی نہیں دکھا رہے تھے ہم سے فائلیں چھپا رہے تھےیہ ملک ہےتماشہ بنا دیا گیا ہےپارلیمنٹ کے باہر سے میرے گھر تک پائین سٹی ہاؤسنگ پراجیکٹ کے بینر زلگے ہوئے ہیں جس پر سی ڈی اے سپانسرڈ لکھا ہوا ہے.
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کیا بیوروکریٹس اور جرنیلوں نے ٹیک اوور کر رکھا ہے بیوروکریٹس عوام کی نہیں کسی اور ہی کی خدمت کر رہے ہیں یہ ملک عوام کیلئے بنا ہے صاحبوں کیلئے نہیں ،ملک ایسے نہیں چلے گاکیا وزیراعظم کل کسی افسر کو کسی بندے کو گولی مارنے کا حکم دے تو وہ گولی مار دیگا ۔