زینب صغیر
اولاد کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ ان کو بات بات پر ڈانٹنے اور غصّہ کرنے سے گزیز کریں ،ان کی شرارتوں، غلطیوں پر ناراضی کا اظہار کرنے کے بجائے محبت سے اُنہیں سمجھائیں۔ جب بچہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے تو والدین کو بہت برا لگتا ہے، مگر وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آخر بچہ جھوٹ کیوں بول رہا ہے ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچہ اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتا ہے ،اس پر بھی اسے ڈانٹ پڑتی ہے تو پھربچہ غلط بیانی سے کام لینے لگتا ہے۔
اس لیے والدین کو چاہیے وہ بچوں کی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کریں یا اگر ان کی غلطیوں پرناراضی ظاہر کریں تو ساتھ سچ کہنےپر سراہیں بھی۔ کبھی کچھ منفی جذبات بھی بچوں میں پنپنے لگتے ہیں،جیسا کہ دوسرے بچوں کو دیکھ کرکسی نہ کسی بات پر ان میں حسد کا مادّہ آجاتا ہے۔ بعض والدین کزنز اور دوستوں سے اپنے بچوں کا موازنہ کرتے ہیں، ایسا کرنے سے بچے کی اپنی شخصیت کہیں کھوجاتی ہے۔
آپ اپنے بچے کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ آپ اپنے بچے کی شخصیت کو مسخ تو نہیں کر رہیں۔ بچے کے جذبات کو نقصان نہ پہنچائیں۔جب بچے کو چوٹ لگتی ہے، تو آپ اسے ہمت دلانے کے لئے یہی کہتے ہیں کہ بیٹا بہادر بنو!، اُٹھو جلدی شاباش! یعنی بہادر ہونا اچھی بات ہے، یہ بات بچپن سے بتائی جاتی ہے۔
بزدل ہونا اچھا نہیں اور اپنے بچے کو بزدل بنانا، تو والدین کبھی نہیں چاہتے، مگر کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ والدین اپنے بچے کو بزدل بنا دیتے ہیں، جیسے اگر کسی کام کے دوران بچے کو کسی کام میں کوئی مشکل یا رکاوٹ پیش آ رہی ہو تو وہ فوراً آگے بڑھ کر وہ کام کر دیتے ہیں۔ ایسے میں جب وہ زندگی میں کسی رکاوٹ کا سامنا کرتا ہے، تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ وہ اپنی راہ میں آنے والی کسی رکاوٹ کو خود سے دور کر سکے۔
اس لئے والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ بچے کو اس بات کا موقع دیں کہ وہ اپنی راہ میں حائل رکاوٹیں پہلے خود دور کرنے کی کوشش کرے، تاکہ مستقبل میں اس بچے کو اپنے زور بازو پر بھروسہ ہو۔ بچوں کو والدین اور پھر ان کی زندگی میں آنے والے دیگر لوگ اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں، مگر نہ جانے کیوں جب بچے اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں،تو وہ بھی والدین کو برا لگتا ہے۔
اس لئے کم از کم اس معاملے میں انہیں چاہیے کہ اتنی ہی نصحیت کریں، جتنی ضروری ہے اور انہیں وہ کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں، اس میں ان کا ساتھ دیں۔ حوصلہ بڑھائیں ،تا کہ وہ کامیاب ہو تو اسے اپنی ذات میں اعتماد ہو۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے، محفل یا دعوت میں بچہ کوئی غلط بات کہہ دے، تو والدین وہیں ٹوکنا اور ڈاٹنا شروع کر دیتے ہیں، جس سے اس بچے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ اس دنیا میں سب صحیح ہے۔
اگر ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے، تو بعد میں اکیلے میں انہیں یہ بات سمجھا دیں کہ ان سے یہ غلطی ہوئی ہے اور وہ کوشش کریں کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔بعض والدین بچوں کو خریداری کے لئے بازار لے جانا ضروری نہیں سمجھتے اور خود ان کی چیزیں لے آتے ہیں، مگر جب وہ چیزیں بچوں کو دیتے ہیں، تو ان میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ بچوں کا یہ انداز والدین کو پسند نہیں آتا، دراصل بعض والدین خود بچوں کو چیزیں پسند کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لئے بچوں کو دوسروں کی چیزوں میں زیادہ دلچسپی ہو جاتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کو زیادہ نہ سہی، لیکن کبھی کبھی خریداری پر ساتھ لے کر جائیں، تاکہ ان کی اپنی پسند اور ناپسند ہو اور وہ اپنی خریدی ہوئی اشیاء کو ہی استعمال کرنے کو ترجیح دے۔ جب بچے بدتمیزی کرنے لگتے ہیں، تو اکثر والدین اس کی اصل وجہ دوستوں اور باہر کے ماحول کو قرار دیتے ہیں، مگر اس کے پیچھے والدین کا اپنا رویہ بھی ہو سکتا ہے، جب بچے اپنی بات والدین سے کہتے ہیں اور انہیں جواب اس انداز میں نہیں ملتا، جس انداز میں وہ توقع کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر انہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید بدتمیزی کرنے پر انہیں توجہ مل سکے۔
اس کا بہترین حل یہی ہے کہ والدین بچوں کی بات کو توجہ سے سنیں، تاکہ وہ غصہ اور بدتمیزی کے بجائے شائستگی اور تمیز سے بات کریں۔ جب آپ اپنے بچے کے احساسات کو اہمیت نہیں دیتے، تو ردعمل میں بچہ بھی اسی ڈگر پر گامزن ہو سکتا ہے۔اس لئے اس حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے، اس کی باتوں کو منطقی اعتبار سے اہمیت دینے کے بجائے، اس کے لئے اہم باتوں کو جگہ دینا ضروری ہے، کیوں کہ بچوں کا اپنا ذہن اور مزاج ہوتا ہے۔