ملک بھر میں صوبائی، لسانی ، مذہبی اور مسلکی ہم آہنگی کا قائم رکھا جانا پاکستان کو درپیش مشکل چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے کس قدر ضروری ہے ، یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں ۔ ان حوالوں سے حالات کو خراب کرنے کیلئے ملک دشمن عناصر اور پاکستان مخالف بیرونی قوتوں کے کارندے ایک مدت سے مسلسل سرگرم ہیں جس کی بناپر آئے دن دہشت گردی کی کارروائیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23 مسافروں کے قتل کی گزشتہ روز ہی پیش آنے والی اندوہناک واردات اِن انسانیت سوز واقعات میں تازہ اضافہ ہے۔ایسی مذموم کارروائیوں کے پیچھے کارفرما نیٹ ورکس کے خاتمے کیلئے حکومت اور عسکری اداروں کے اقدامات کا مزید مؤثر بنایا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ بلوچستان کی طرح آج سے تقریبا ایک دہائی پہلے تک ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی بھی صوبائی، لسانی ، مسلکی اور فرقہ وارانہ منافرت اور دہشت گردی کا گڑھ بنا رہا ہے۔تاہم خدا کا شکر ہے کہ سیاسی حالات کی تبدیلی اورحکومتی و ریاستی اداروں کے نتیجہ خیزاقدامات کے بعد اب تین کروڑ آبادی کے اس شہر میں ان حوالوں سے صورت حال پوری طرح اطمینان بخش ہے اگرچہ لوٹ مار اور ڈکیتیوں پر قابو پانے میں نفاذ قانون کے ادارے بری طرح ناکام ہیں۔اس تناظر میں گزشتہ روز چہلم امام حسینؓ سے عین ایک دن پہلے شہر کے ایک حساس علاقے میں دو مذہبی گروہوں میں کشیدگی کے بعد فائرنگ اور اس میں دو افراد کے جاں بحق اور نو افراد کے زخمی ہوجانے کا افسوسناک واقعہ شہر میں مذہبی و مسلکی ہم آہنگی قائم رکھنے کی خاطر حکومت ہی نہیں بلکہ تمام مسالک کے علمائے کرام اور سماجی و سیاسی رہنماؤں کی جانب سے فوری توجہ کا متقاضی ہے تاکہ شرپسند عناصر اس واقعے کو بنیاد بناکر مسلکی اختلافات کو ہوا دینے اور حالات کو بگاڑنے کی کارروائیاں نہ کرسکیں۔