اسلام آباد (فخر درانی) کیا اڈیالہ جیل کے سینئر حکام کے تبادلے اور تعیناتی سے جیل میں عمران خان کی سہولت کاری بند ہو جائے گی؟
جیل قوانین قیدیوں بالخصوص سابق وزیراعظم عمران خان جیسی شخصیات کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جب سے عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں، وہ کچھ غیر ملکی مطبوعات میں شائع ہونے والے مضامین کے ذریعے معلومات باہر کی دنیا تک باتیں پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان صرف مضامین شائع کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ وہ جیل کے باہر کئی لوگوں سے مبینہ طور پر جیل کے عملے کی ملی بھگت سے رابطے میں تھے۔
سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل محمد اکرم کو انہی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور عمران خان پر مہربانی کرنے والے جیل کے کئی اہلکاروں کو صوبے کی دیگر جیلوں میں تبادلہ کیا گیا ہے۔
کیا عمران خان غیر ملکی اخبارات میں کیلئے مضامین لکھ سکتے ہیں اور کیا وہ جیل میں ملاقات کے منظور شدہ اوقات کار کے بعد اپنے پیغامات جس کو چاہیں پہنچانے کے حقدار ہیں؟ اگر نہیں تو پھر انہیں باہر سے جیل میں معلومات کیسے پہنچتی ہیں؟ اور وہ جیل سے باہر پیغامات بھیجنے میں کیسے کامیاب ہوتے ہیں؟
ایک گرفتاری اور محض کچھ تبادلوں اور تعیناتیوں کے علاوہ اس سارے عمل میں ملوث افراد کیخلاف کیا کارروائی کی گئی کیونکہ یہ کسی ایک شخص کا کام نہیں ہو سکتا۔ جس وقت پنجاب کے جیل حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اس وقت اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے جیل کے قوانین کسی قیدی کو کسی بھی اخبار (قومی یا بین الاقوامی) کو خط یا مضمون لکھنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا جیل میں قید شخص سیاست میں سرگرم ہو سکتا ہے؟
پاکستان جیل کے قوانین 1978ء قیدیوں کے حقوق، سیاست میں ان کی شمولیت، یا اگر وہ کسی غیر ملکی میڈیا کیلئے لکھ سکتے ہیں، کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جنوری 2024 میں دی نیوز نے پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن سے رابطہ کرکے پوچھا تھا کہ کیا غیر ملکی اخبارات میں عمران خان کے نام سے شائع ہونے والے مضامین دراصل عمران خان نے خود لکھے ہیں یا یہ ان کے نام سے کسی اور نے لکھے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ یہ خط کسی اور کا نہیں بلکہ عمران خان نے خود لکھا تھا۔