• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی حیدرآباد سپر ہائی وے کو موٹروے نہیں کہہ سکتے، سندھ ہائیکورٹ، 3 ماہ میں فزیبلٹی رپورٹ طلب

کراچی ( رپورٹ : محمد منصف ) سندھ ہائی کورٹ نے چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے کراچی تا حیدر آباد موٹروے کی فزیبلٹی رپورٹ تین ماہ میں طلب کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ سپر ہائی وے کو موٹر وے نہیں کہا جا سکتا، کراچی پورٹ سٹی ہے جو پورے ملک کے لئے ٹیکس کا بڑا حصہ ادا کرتا ہے اور کراچی کو حیدر آباد ملانے والی واحد یہی سپر ہائی وے کی سڑک ہے اس لئے ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں موٹر وے کی تعمیر بہت ضروری ہے۔واضح رہے کہ کراچی تا حیدرآباد موٹر وے سے متعلق مجموعی طور پر72آئینی درخواستیں دائر ہیں۔ کراچی سے حیدر آباد سپر ہائی وے کو 2015میں موٹروے میں تبدیل کرتے ہوئے منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا کہ سڑک پر ایک اضافی لائن اور اسکے ساتھ سروس روڈ کی تعمیر کرنا تھی اس مقصد کیلئے سندھ حکومت نے زمین بھی دی تاہم بعد میں دی گئی زمین میں کمی کردی گئی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے جسٹس صلاح الدین پہنور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کو سماعت کے موقع پر بتایا کہ کراچی تا حیدر آباد نئی موٹر وے کا منصوبہ زیر غور ہے لیکن چائنہ اور پاکستانی کنسلٹنٹ نے اس حوالے سے کام شروع نہیں کیا۔ جس پر فاضل عدالت نے چیئرمین نیشنل ہائی وے کو حکم دیا کہ تین ماہ فزیبلٹی رپورٹ تیار کر کے متعلقہ حکام سے منظور کرائیں اور 28 نومبر کو عدالت کے سامنے پیش کریں۔ عدالت عالیہ نے اپنے حکم نامہ میں کہا کہ کراچی پورٹ سٹی ہے، ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں موٹروے بہت ضروری ہے ، عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ سپر ہائی وے کو موٹر وے میں تبدیل کیا گیا لیکن اسے موٹروے نہیں کہا جا سکتا۔ اسکور نامی نجی کمپنی جسے 2015 میں کنٹریکٹ دیا گیا تھا کہ یہ کمپنی سڑک کی تعمیر ٹول ٹیکس کی وصولی اور سڑک کی مرمت بھی کریگی۔ عدالت عالیہ نے نجی کمپنی کے نمائندہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے مطابق آپ اپنی سروس نہیں دے سکے جس پر اسکور نمائندہ نے کہا کہ اسٹے آرڈر کی وجہ سے معاملہ عدالت میں ہے اسلئے سروس روڈ سمیت ہم دیگر خدمات سرانجام نہیں دے سکے۔
اہم خبریں سے مزید