اسلام آباد( رپورٹ:رانا مسعود حسین)سپریم کورٹ نےʼʼ نیشنل پارک مارگلہ میں غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے ریسٹورنٹس کی بندش اور اس علاقہ میں کاروباری سرگرمیوں پر پابندیʼʼ کے حالیہ احکامات کیخلاف دائر کی گئی نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے .
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز اس فیصلے سے متاثرہ ریسٹورنٹس اور وزارت دفاع کے لاء افسر بریگیڈیئر ریٹائرڈ فلک ناز وغیرہ کی جانب سے دائر نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ نیشنل پارک میں چھوٹا سا کھوکھا بنانے کی اجازت دی گئی اور یہاں پر بڑے بڑے محلات تعمیر کردیئے گئے ہیں،مو سمیاتی تبدیلی سے ملک تباہ ہوگیاہے لیکن یہاں پر مقصد صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے، ریسٹورنٹ مالکان کے وکیل نعیم بخاری پیش ہوئے اور تعمیرات گرانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ریسٹورنٹ مالکان نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے، نہ ہی یہ درست ہے کہ ریسٹورنٹ غیر قانونی ہے ؟باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیاتھا ،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ریسٹورنٹ کے لائسنس کی کوئی تجدید ہوئی تھی تو اسکی دستاویزات دکھا دیں
فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جب لائسنس نہیں تھا تو میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد نے 2018 میں لائسنس کی فیس چار سو فیصد کیسے بڑھا دی تھی؟چیف جسٹس نے کہاکہ تعلقات کے سبب ایسا ہوا ہوگا؟ دوران سماعت وزارت دفاع کے ڈائریکٹر( لیگل )بریگیڈئیر ریٹائرڈ فلک نازروسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیا کہ عدالت نے میرے حوالے سے کچھ ایسے ریمارکس دیئے ہیں جن سے مجھے دلی دکھ ہواہے
انہوںنے کہاکہ عدالتی ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ میرا کورٹ مارشل ہونا چاہیے،انہوں نے کہا کہ کسی افسر کے کورٹ مارشل کے لئے ا فواج پاکستان میں پورا طریقہ کارطے ہے،ایک جنرل کی رائے پر بھی کسی کو کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا ہے ۔