اسلام آباد: (انصار عباسی)…نون لیگ کی حکومت عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم منظور کرانے میں ناکامی پر بہت شرمندگی کا شکار ہے، دو افراد محسن نقوی اور اعظم نذیر تارڑ کو آئینی ترمیم کے معاملے پر مولانا سے مذاکرات اور انہیں آن بورڈ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن سیاسی جوڑ توڑ میں ان دونوں کی ناتجربہ کاری کے باعث اسے خفیہ نہیں رکھا جا سکا اور معاملہ قبل از وقت منظر عام پر آگیا۔
جو کام خاموشی سے کرنے کا تھا اُسے قبل از وقت ہی ٹی وی پر کھول کر پیش کر دیا گیا جس کے باعث حکومت کیلئے پورے معاملے کا ستیاناس ہوگیا۔ جس وقت پیپلز پارٹی، دیگر اتحادی شراکت دار حتیٰ کہ نون لیگ کے کئی رہنما سوچ بچار کر رہے تھے اور انہیں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ مولانا کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے؛ اُس وقت انہیں یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ مولانا نے تو مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ دیکھا ہی نہیں۔
اس پورے معاملے میں اسحاق ڈار بعد میں شامل ہوئے۔ وزیراعظم بھی مولانا کی رہائش گاہ جا پہنچے، ایوانِ صدر نے بھی کوشش کی جبکہ بلاول بھی جے یو آئی ف کے سربراہ سے ملنے کیلئے گئے، لیکن حکومت کیلئے کوئی راہ نہ نکلی۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں سب کچھ حتمی طے ہونے کے بعد باتیں سامنے آتی ہیں۔ لیکن، اس معاملے میں مولانا سے کوئی ڈیل کیے بغیر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کر لیے گئے۔
آئینی ترمیمی پیکیج پہلے تو گزشتہ بدھ کو پیش کیے جانے کا ارادہ تھا لیکن عددی قوت پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ پی ٹی آئی سے ووٹوں کی مطلوبہ تعداد پوری تھی لیکن مولانا کی وجہ سے معاملہ خراب ہوگیا جس سے حکومت بالخصوص نون لیگ کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا۔
نون لیگ کے ایک ذریعے کے مطابق، مولانا کو منانا اب بہت مشکل ہوگا لیکن ایک اور ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ کام پورا کرنے کیلئے زبردست کوشش کی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس ہدف کے حصول کے سوا کوئی آپشن نہیں تاکہ حکمران جماعت اور شہباز حکومت کو بھاری قیمت چکانے سے بچایا جا سکے۔
نون لیگ کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ہفتے کے آخری دنوں میں ہوئی گڑ بڑ کے باوجود ہم اس معاملے کو مردہ قرار دیکر چھوڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس یہ ترامیم 15؍ روز میں منظور کرانے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس عددی قوت تھی، ہمارے پاس پیشکش موجود تھیں لیکن مولانا کی وجہ سے معاملہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔ ذریعے نے مزید کہا کہ حکومت اس معاملے کو مردہ قرار دیکر کر ایسے ہی چھوڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ذرائع کا خیال ہے کہ شہباز شریف حکومت کا مستقبل اور سیاسی استحکام ان ترامیم پر منحصر ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ہمیں جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کی کوئی فکر نہیں، کچھ اور معاملات ہیں جو ہمارے لیے باعثِ پریشانی ہیں۔
ذرائع کے مطابق، نون لیگ اور پیپلز پارٹی مولانا کی حمایت کے حصول کیلئے اپنی تمام تر کوششیں کریں گی۔ ذرائع کے مطابق، ’’ہمیں گورنر خیبر پختونخوا کے عہدے اور جے یو آئی ایف کیلئے وفاقی کابینہ میں کچھ عہدوں کی پیشکش ہوئی ہے۔‘‘ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی ایف کو سینیٹ میں دو نشستیں دینے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔