اسلام آباد( صالح ظافر ) امریکی بااثر اخبار "دی وال اسٹریٹ جرنل" نے رپورٹ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان جیل سے ہی اپنی جماعت کے بڑے اور چھوٹے فیصلے کر رہے ہیں۔ چونکہ جیل کے قوانین انہیں اپنی قانونی ٹیم سے ملاقات کی اجازت دیتے ہیں، اس لیے انہوں نے وکلاء کو پارٹی کے کئی اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا ہے۔ عمران خان نے جیل سے "دی وال اسٹریٹ جرنل" کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ لڑتے رہیں گے۔
انہوں نے اپنی برطرفی کے حوالے سے کہا، "پاکستان کے عوام، بشمول وہ لوگ جو عموماً سیاست سے دور رہتے ہیں، اس ناانصافی کو پہچانتے ہیں۔" 71 سالہ عمران خان نے تحریری طور پر سوالات کے جوابات دیے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان جیل میں فرسٹ کلاس ہوٹل کی سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جبکہ اپنے مخالفین کے لیے انہوں نے جیل کی زندگی کو مشکل بنا دیا تھا۔ فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس مہینے کہا کہ "پاکستان کی فوج ایک قومی فوج ہے، اور اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔
" عمران خان نے کہا کہ "لوگوں نے اور میں نے" انتخابات جیتے، اور مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت کوئی طبقہ "واقعی آزاد" نہیں ہے۔ اخبار کے مطابق فوج کی حمایت سے بننے والی مخلوط حکومت، جس کی سربراہی وزیر اعظم شہباز شریف کر رہے ہیں، جائز حکومت کے قیام میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے ۔
حکومت آئین میں ایسی ترامیم کی تلاش میں ہے جو عدالتوں کے اختیارات کو کم کر سکے۔عمران خان نے کہا، "قوم اخلاقی اور مالی دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے، اور اس کے عوام، مایوس ہو کر، موجودہ مسلط شدہ حکومت میں کوئی امید نہیں دیکھتے۔
" پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان کو گزشتہ سال فوجی تنصیبات پر ہونے والے احتجاج کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں خفیہ فوجی مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کچھ الزامات موت کی سزا کا سبب بن سکتے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا، "ان کا مقصد فوج کے اندر بغاوت اور مکمل انتشار تھا۔