لندن ( وجاہت علی خان ) غزہ اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے باعث برطانیہ میں ملازمت کی جگہوں پر مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔ امتیازی سلوک کے شکار افراد میں یہودیوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔حکومت کو پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں کاروباروں اور دفاترکے اندر مذہبی امتیاز کی سطح انتہائی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اس ضمن میں ایک تہائی یعنی 36فیصد اور تقریبا نصف تعداد میں یہودی کارکن یعنی 47فیصد نے یہ دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے 7اکتوبر 2023سے امتیازی سلوک کا تجربہ کیا یا اس میں پہلے کی نسبت اضافہ دیکھا۔ برطانیہ کے معروف کاروباری ماہر نفسیات پیرون کنڈولا کے اعداد و شمار کے مطابق بھی امتیازی سلوک کے متاثرین کی تعداد زیادہ بڑھی ہے، پچھلے دس مہینوں کے اندر ایک چوتھائی مسلمانوں 24فیصدجبکہ 39یہودی کارکنوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس میں زبانی طور پر ہراساں کرنا، دقیانوسی تصور اور روزانہ کی بنیاد پر متعصبانہ شامل ہے جس میں سوشل میڈیا کے ذریعہ بڑھتے ہوئے مخالفانہ ماحول کو ہوا دی جا رہی ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق مسلمان کارکن 21فیصد اور یہودی کارکن 31 فیصد ملازمت کی جگہوں پر خود کو آجر کی طرف سے بھی غیر مخفوظ اور اکیلا محسوس کر رہے ہیں۔ مذکورہ تحقیقاتیرپورٹ کے دو حصے تھے ان میں ایک سروے جون 2023میں کیا گیا اور اس میں 500یہودیوں نے اور 500 مسلمانوں نے حصہ لیا تھا بعد ازاں مسلمانوں او یہودیوں کے دس دس افراد سے علیحدہ ملاقاتیں بھی کی گئیں۔