پشاور(ارشدعزیزملک ) خیبر پختونخوا کے پولیس افسروں نے پولیس ایکٹ 2017 میں مجوزہ ترامیم پر شدیدتحفظات اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے پولیس کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش سےپولیس کے اندر سیاسی مداخلت میں اضافہ ہوگا اور پولیس فورس کی کارکردگی متاثر ہوگی۔پولیس افسر ترامیم کو پولیس پر سیاسی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں ، جس سے سینئر افسران میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی آزادی اور کنٹرول کو کمزور کرے گا۔ سینئر افسروں میں بے چینی، پشاور میں اجلاس ،سپیکر سے ملاقات ،تحفظات سے آگاہ کیا ،افسروں کا وفدپیرکو وزیراعلیٰ سے ملاقات کرے گا ،خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس، اختر حیات گنداپور کے مطابق ترامیم آئی جی کو اعتماد میں لیے بغیر پیش کی گئیں ، کابینہ اجلاس میں مخالفت بھی کی،مقصدپولیس کو محکمہ فشریز کے برابر لانا ہے ،مصدقہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پیر کے روز 30 پولیس افسران کا وفد مجوزہ ترامیم پر بات چیت کرنے اور حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات کرے گا۔ذرائع کے مطابق پولیس ایکٹ میں ترامیم آئی جی پولیس کو اعتماد میں لیے بغیر کابینہ اجلاس میں پیش کی گئیں اور آئی جی خیبرپختونخوا نے کابینہ اجلاس میں بھی ایکٹ کی مخالفت کی۔ذرائع نے بتایاکہ آئی جی نے اجلاس میں کہاکہ ایسا کرنے سے محکمہ پولیس کو نقصان ہوگا۔ذرائع کے مطابق محکمہ پولیس میں تشویش ہے کہ ترمیمی ایکٹ سے پولیس کا اختیار بیوروکریسی کے پاس چلا جائے گا اور ترمیم سے محکمے میں سیاسی مداخلت ہوگی۔خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس، اختر حیات گنداپور نے جنگ کو بتایا کہ انہوں نے مجوزہ ترمیم کی مخالفت کی اور حکومت کی جانب سے کئی نکات واپس لے لیے گئے۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ ان ترامیم کےصوبے میں پولیسنگ پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے تحفظات اور خدشات سے صوبائی کابینہ کو آگاہ کردیا تھا ۔سینئر پولیس افسروں نے پشاور میں اجلاس منعقد کیا جس میں مجوزہ ترامیم پر غور کیا گیا، اور پولیس کی خودمختاری پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا گیا اور صوبائی حکومت کے سامنے اپنے موقف پیش کرنے کی تیاری کی گئی ۔اجلاس کے بعد ایک افسر نے اس جنگ کو بتایا کہ چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس نے کابینہ کے اجلاس میں پولیس ایکٹ 2017 میں ترامیم کی مخالفت کی، لیکن ان کے سنگین تحفظات کے باوجود کابینہ نے ترامیم کی منظوری دے دی۔