• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی نے احتجاج کیلئے جس وقت کا انتخاب کیا وہ غلط ہے، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرا م’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال تحریک انصاف کے احتجاج پر جو تنقید ہو رہی ہے کیا وہ درست ہے ؟اس سوال کے جواب میں تجزیہ کارمظہر عباس ، بینظیر شاہ اور ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ حکومت کو تحریک انصاف کے ساتھ اینگیج کرنا چاہئے اور اس احتجاج کے معاملے کو اچھی طرح سلجھانے کی ضرورت ہے جبکہ تجزیہ کار فخر درانی سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کو اگر عمران خان تک رسائی دے بھی دی جائے تو وہ کوئی اور بہانہ بنا کر پندرہ اکتوبر کے احتجاج کی کال برقرار رکھے گی تاکہ حکومت کو دباؤ میں لیا جائے تاہم چاروں تجزیہ کار اس بات پر متفقہ ہیں کہ تحریک انصاف کا طریقہ کار اور بالخصوص احتجاج کے لئے جس وقت کا انتخاب کیا گیا ہے وہ سراسر غلط ہے اور تحریک انصاف کو اپنی سیاسی حکمت عملی کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔تجزیہ کار بینظیر شاہ نے کہا کہ پہلے پی ٹی آئی کی یہ شکایت تھی کہ آئینی ترمیم میں ہم سے بات نہیں کی جارہی ہے آئینی ترمیم پچیس اکتوبر سے پہلے ہے جس پر ہم احتجاج کرنا چاہتے ہیں اور دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں اب وہ ساری بات ختم ہوگئی ہے حکومت نے پارلیمانی کمیٹی بنا دی ہے حکومت کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اس معاملے کو حل کریں ۔ تحریک انصاف کہتی ہے کہ ہمیں اگر عمران خان تک رسائی نہیں ملی تو ہم پندرہ اکتوبر کو نکلیں گے اس بیان سے بظاہر لگ رہا ہے کہ ان کا احتجاج کا پرورگرام نہیں ہے عمران خان تک ایکسز کی کوشش ہے۔تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ تحریک انصاف کو اپنی حکمت عملی کا دوبارہ معائنہ کرنے کی ضرورت ہے اس دن اگر امن و امان کی صورتحال بگڑتی ہے تو انہیں سیاسی طور پر بہت نقصان ہوگا۔ تحریک انصاف کو شنگھائی کانفرنس کو ویلکم کرنا چاہیے اس سے ان کا امیج اوپر جائے گا۔تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ حکومت طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔ بات چیت سے معاملہ حل کریں گزشتہ برسوں میں آپ نے ہر طرح سے طاقت استعمال کر کے دیکھ لی ہے۔عمران خان سے اُن کے ڈاکٹر کی ملاقات کروادیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں جو کچھ ڈی چوک پر ہوا اس کا ردِ عمل ہے یا تحریک انصاف ٹریپ میں آگئی ہے یا تحریک انصاف کے رانگ نمبرز جیت رہے ہیں اور تحریک انصاف ہار رہی ہے۔تینوں صورتوں میں اُن پر ہونے والی تنقید درست ہے۔تحریک انصاف کو ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پندرہ اکتوبر کا فیصلہ عمران خان کا نہیں ہے چونکہ اُن سے کوئی رابطہ نہیں ہے یہ پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی کا فیصلہ ہے۔میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف یہ فیصلہ واپس لے لے گی۔تجزیہ کار فخر درانی نے کہا کہ عمران خان کی پوری سیاست ہی احتجاج اور انتشار پر رہی ہے ۔2014 میں بھی چائنز صدر کا دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔1974 کے بعد یہ اتنا بڑا ایونٹ ہے کہ بارہ ممالک کے سربراہان حکومت آرہے ہیں۔یقیناً یہ حکومت کا کمزور پوائنٹ ہے تو اس چیز کو انہوں نے استعمال کرنا ہی تھا۔ اگر تحریک انصاف کو آج عمران خان سے ملنے کی اجازت مل بھی جاتی ہے تو کل کو یہ کوئی اور بہانہ بنا کر پندرہ سولہ اکتوبر تک حکومت کو بلیک میل کرتے رہیں گے۔ دو سو سے زیادہ عالمی میڈیا کے نمائندے آئیں گے تو یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی کوریج ملے۔

اہم خبریں سے مزید