• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئینی ترامیم، PTI عملاً الگ ہوگئی، مسودہ پیش کیا اور نہ ہی تجویز دی

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) آئینی ترامیم کے معاملے سے تحریک انصاف عملا الگ ہو گئی، مسودہ پیش کیا اور نہ ہی کوئی تجویز دی ہے، 15 اکتوبر کو پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوگا ، اجلاس میں ہنگامہ کرنے یا نہ کرنے کے سوال پر PTIمیں اختلافات شدید ہوگئے.

 حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک کے نمائندے اپنے سیاسی مقصد کے لئے ھنگامہ کرنے کی غرض سے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں عمران سے ملاقات نہیں کرائی جائیگی، احتجاج اور ہنگامے کو سختی سے کچل دیا جائیگا، بلاول اور پی پی ارکان کیلئے 17اکتوبر ڈی ڈے ، انہیں 18اکتوبر کو سانحہ کارساز کی برسی کیلئے کراچی جانا ہوگا۔ 

تفصیلات کے مطابق عدالتی اصلاحات کے لئے آئینی ترامیم سے تحریک انصاف عملی طور پر الگ ہوگئی ہے وہ ان ترامیم کو ناقابل عمل بنانے کے لئے فی الوقت اعلی عدلیہ پر انحصار کررہی ہے تاہم اس کی تمام تر کوششوں کا محور قومی اسمبلی اور سینیٹ کے وہ ارکان ہیں جنہیں وہ اپنی صف میں شمار کرتی ہے لیکن وہ آنکھیں بند کرکے تحریک انصاف کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ نہیں اور امکان موجود ہے کہ وہ آئینی ترامیم کی حمایت میں ووٹ دینگے اپنے اس اقدام کے لئے وہ نتائج کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار ہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے عہدیدار پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں اب احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے لئے شریک ہورہے ہیں وہ آئینی ترامیم پر بحث و تمحیص میں حصہ لینے کی بجائے دیگر معاملات پر شور مچانے کے لئے اس میں شریک ہورہے ہیں۔ 

حد درجہ قابل اعتماد ذرائع نے جنگ / دی نیوز کو بتایا ہے کہ تحریک انصاف کے نمائندے آئندہ تین دنوں میں ملک میں ہنگامہ آرائی اور فساد پیدا کرنے کی غرض سے ’’احتجاج‘‘ کی راہ لے رہے ہیں جس کے لئے اس سے ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں حکمر ان مسلم لیگ نون سے لیکر حزب اختلاف کی سب سے جاندار آواز مولانا فضل الرحمن تک سب نے تحریک انصاف کو ہنگامہ آرائی سے باز رہنے کا مشورہ دیدیا ہے، خود تحریک انصاف کے اندر بھی ہنگامہ آرائی کرنے اور ناں کرنے کے سوال پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں حکومت نے پیش آمدہ دنوںمیں کسی بھی قیدی کی ملاقات نہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے وہ سختی سے اپنے اس فیصلے پر کاربند ہے کہ عمران خان کی ضابطے سے ہٹ کر کوئی ملاقات نہیں کرائی جائے گی۔ ملاقات آئندہ پیر (21؍اکتوبر) سے پہلے ممکن نہیں ہوگی۔

 اس سوال پر اگر تحریک انصاف نے احتجاج کیا تو اسے پوری قوت سےکچل دیا جائے گا۔وہ ایک طرف شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنے کے لئے احتجاج کو بہانہ بنا رہی ہے دوسری جانب آئینی ترامیم کے موقع پر ایسا ہنگامہ پیدا کرنا ہے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت بھی گھبراجائے اور پارلیمنٹ کی کارروائی کا چلانا مشکل ہوجائے جہاں آئینی ترامیم کو منظور کرانے /غور کرنے کے لئے بہت محدود وقت باقی رہ گیا ہے۔ 

ذرائع نے رازداری سے بتایا ہے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے اصولی مفاہمت آج (پیر) کو اصولی مفاہمت طے پاجائے گی۔ اتوار کو بھی دن بھر حکمران جماعت اور اس کے طرفداروں میں مذاکرات کا عمل جاری رہا۔ 

ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے تمام گروپس کو اطلاع دیدی ہے کہ وہ مذاکراتی کام کو آج (پیر) شام تک کسی نتیجے پر پہنچانے کی خواہاں ہے اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے سرگرمیوںمیں مصروف ہوجائیں گے جس کے اجلاس میں شرکت کے لئے آرہے متعدد مندوبین سے ان کی ملاقاتیں ہونگی جن سے ان کا تعلق وزیرخارجہ ہوتے ہوئے استوار ہوگیا تھا۔ 

تنظیم کا اجلاس ختم ہونے کے بعد اسلام آباد میں قیام کے لئے ان کے پاس محض ایک دن ہوگا وہ 17؍ اکتوبر کو کسی صلاح مشورے میں حصہ لے سکیں گے یہی وجہ ہے کہ قیاس کیا جا رہاہے کہ پارلیمانی ایوانوں کے اجلاس 17؍ کتوبر کو ہوجائیں گے جن میں آئینی ترامیم زیر غور لائی جائیں گی۔

بلاول بھٹو نے 18؍ اکتوبر کو کراچی پہنچنا ہے جہاں اپنی سانحہ کارساز کی برسی کے لئے منعقد ہونے والے اجتماع میں شریک ہونا ہے اور اس میں جاں بحق ہوئے کارکنوں کے ورثاء سے ملاقاتیں کرنا ہیں۔

اسی دوران حکومتی ذرائع نے امید ظاہر کی ہے کہ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے ارسال کردہ ان دو مراسلوں کے با رے میں 17؍ اکتوبر کو فیصلہ کردے گا جس میں مخصوص نشستوں پر کامیاب قرار دیئے جاچکے ارکان کو ایوان میں رکنیت واپس دینے کا اعلامیہ جاری ہونا ہے۔

اہم خبریں سے مزید