• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئینی عدالت نہیں، بنچ بنے گا، چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے ہوگا، حکومت نے اصل آئینی پیکیج کو یکسر تبدیل کردیا

انصار عباسی (اسلام آباد) حکومت نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے خیال کو ترک کرتے ہوئے اپنےاصل آئینی پیکیج کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور ساتھ ہی تجویز پیش کی ہے کہ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقرری عدالتِ عظمیٰ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے‘ آئینی پیکیج میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا خیال ترک کر دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے قیام کی سفارش کی گئی ہےجبکہ سپریم جوڈیشل کونسل اور متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل نو کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق جمعرات کو حکومت کی جانب سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی (مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل آئینی ترمیمی پیکجز پر غور کرنے والی کمیٹی) کو فراہم کیے گئے آئینی پیکیج کا مسودہ ایک ایسی ترکیب پیش کرتا ہے جسے اگر پارلیمنٹ نے منظور کر لیا تو اس سے موجودہ چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی 25؍ اکتوبر کو ریٹائر ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ اپنی حالیہ مشاورت کے بعد حکومت کی جانب سے جو نظرثانی شدہ آئینی پیکیج تیار کیا گیا اُس میں اس بات کی ضمانت نہیں دی گئی کہ جسٹس منصور علی شاہ ملک کے آئندہ چیف جسٹس ہوں گے۔ آئینی پیکیج کے مسودے میں ججز کی تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چیف جسٹس کے تقرر کیلئے سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے نام منظوری کیلئے وزیراعظم کو تجویز کرے۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ جے یو آئی ف چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار کی اس تبدیلی سے اتفاق کرتی ہے لیکن جے یو آئی ف کا اصرار ہے کہ اسے مستقبل میں سینیارٹی کے موجودہ اصول پر جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری کے بعد لاگو کیا جائے۔ حکومت کے آئینی پیکیج میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا خیال ترک کر دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے قیام کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ آئینی بینچ سپریم جوڈیشل کمیشن تشکیل دے گا نہ کہ حکومت یا چیف جسٹس۔ حکومت نے سپریم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی بات کی ہے اور سفارش پیش کی ہے کہ اس کے ارکان میں 6؍ ججز کے ساتھ 7؍ ایسے افراد ہوں گے جو ججز نہیں ہوں گے‘ان میں وزیر قانون، اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ کا ایک ریٹائرڈ جج، وکلاء کمیونٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندے شامل ہوں گے۔ آئینی پیکیج میں پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے تناسب سے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل نو کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ ججوں کی تقرری کیلئے جو طریقہ کار 18ویں ترمیم کا حصہ تھا، جسے بعد میں سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد 19ویں ترمیم میں تبدیل کر دیا گیا، اسے دوبارہ متعارف کرایا جائے گا۔ سروسز چیفس کی تقرری (بشمول توسیع) کیلئے موجودہ طریقہ کار کو آئینی تحفظ دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ حکومت کی مجوزہ ایک اور ترمیم کے تحت کسی بھی شخص کیلئے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے 90؍ دن تک دوہری شہریت رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ 90؍ دن کے بعد اسے اپنی نشست سے استعفیٰ دینا ہوگا یا پھر غیر ملکی شہریت ترک کرنا ہوگی۔

اہم خبریں سے مزید