رضوانہ سید علی
ادیب کا تعارف کہانی کا انتخاب۔ علی حسن ساجد
رضوانہ سید علی پاکستان کی ایک معروف افسانہ نگار، اور بچوں کی ادیبہ ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرتی مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
بچوں کے لئے انہوں نے ایک تھا جنگل، انوکھا سفر، بچپن جھاڑو کے سے، عبدالکواب، ڈرانا نہیں، اب جنگ نہ ہو، ریشم اور گھمن نگر نگرنامی کتابیں تحریر کیں، ان کی کہانیوں میں ہمیشہ ایک سبق، آسان الفاظ کا استعمال اور کہانیوں میں دلچسپی کا عنصر ہمیشہ نمایاں رہتا تھا، رضوانہ سید علی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی لکھی ہوئی کہانیاں آج بھی بچے بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔
پیارے بچو! آج آپ ایک ادیب ایک کہانی میں رضوانہ سید علی کی بچوں کے لئے لکھی ہوئی کہانی میاں اکڑفوں پڑھیں گے۔
چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی، راستے سنسنان تھے۔ مارے گرمی کے چیل بھی انڈا چھوڑے دے رہی تھی۔ ایسے میں میاں اکڑ فوں ایک لمبی پگڈنڈنی پر چلے جا رہے تھے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ رینگ رہے تھے اور ساتھ ہی کچھ بڑبڑاتے بھی جا رہے تھے۔
ویسے تو پھوں پھاں کرنا اور بڑبڑکرنا ان کی گھٹی میں پڑا تھا مگر ایسے وقت میں جب زمین جھلس رہی تھی ہر ذی روح کسی کونے میں چھپا بیٹھا تھا، اگر کسی بڑے سے بڑے خوش اخلاق کو بھی باہر نکلنا پڑتا تو ساری خوش اخلاقی دھری رہ جاتی، وہ تو تھے ہی میاں اکڑفوں۔
بھئی بچو! آپ کو یقینا تعجب ہو رہا ہوگا کہ آخر یہ حضرت تھے کون؟ تو لو بھئی ہم آپ کو بتا دیتے ہیں کہ میاں اکڑفوں بڑی عمر کے ایک انتہائی غصیلے اور تنک مزاج خرگوش تھے۔
ہاں تو اس وقت بھی وہ گرمی میں غصے میں جلتے بھنتے ایک لمبی سی پگڈنڈی پہ چلے جا رہے تھے کہ پیچھے سے چرخ چوں کی آواز سنائی دی۔ مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اود بلاؤ اپنے چھکڑے میں لومڑ جوتے اسے ہنکاتا چلا آرہا ہے۔ اُس نے میاں اکڑفوں کو دیکھ لیا ۔ بوڑھا تھکا ماندہ سا خرگوش دیکھ کر اسے ترس آگیا قریب آکر بولا۔
”کیوں میاں! جانورستان چل رہے ہو تو بیٹھ جاؤ گاڑی میں“ میاں اکڑفوں نے اپنی سرخ واسکٹ اتار کر کندھے پر ڈال رکھی تھی۔ خواہ مخواہ ہی اسے جھٹک کراتارا اور دوسرے کندھے پہ ڈال کر اچھلے اور گاڑی میں جا بیٹھے۔ اود بلاؤ اس عجیب رویئے پر حیران تو ہوا مگر خاموش رہا اور گاڑی ہانکنے لگا۔ کچھ دیر بعد اسے پیچھے سے کچھ بڑبڑ سنائی دی۔ اس نے پلٹ کر پوچھا۔
”کیا کہتے ہو میاں؟“۔
”میں کہہ رہا تھا تمہاری گاڑی بہت سخت ہے۔ بیٹھتے ہی میری کمر دکھنے لگی۔“
”یہ تو تمہاری عمر کا تقاضہ ہے“ اود بلاؤ ہنس پڑا۔
”ایسا کرو اپنی واسکٹ نیچے بچھا لو۔“
اود بلاؤ پھر گاڑی ہانکنے لگا۔ گرمی بڑھتی جا رہی تھی۔ بے چارہ لومڑ ہانپتے کانپتے گاڑی کھینچے لئے جا رہا تھا۔
کچھ دیر بعد پھر پیچھے سے بڑبڑاہٹ سنائی دی۔
”اب کیا ہوا؟“ اس نے پوچھا۔
”تمہارا یہ لومڑ بہت آہستہ چل رہا ہے۔ اس نے تو کچھوے کو مات کردیا ہے۔“
”گرمی بھی تو دیکھو کس قیامت کی پڑ رہی ہے۔ ہم لوگ تین میل پیچھے سے چلے آرہے ہیں۔“
میاں اکڑفوں منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاکر خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر راستہ خاموشی سے کٹا اور پھر وہی بڑبڑ شروع۔ اود بلاؤ جھلا کر پلٹا۔
”کیا مسئلہ ہے۔“
”تم اس قدر پھیل کر بیٹھے ہو کہ مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا“ میاں اکڑفوں نے مسئلہ بتایا۔
”میں پھیل کر نہیں بیٹھا ہوں بلکہ میں ہوں ہی موٹا تازہ“ اود بلاؤ جل کر بولا۔
چلتے چلتے وہ لکڑی کے ایک پرانے پل پر جا پہنچے۔ یہاں چھکڑے نے اتنے ہچکولے کھائے کہ اس کے پہیے کراہنے لگے۔ چرخ چوں کی آواز چرخ خ خ خ…… چوں چوں چیں میں بدل گئی اور ساتھ ہی میاں اکڑفوں کی بڑبڑاہٹ بھی زور پکڑ گئی۔
اود بلاؤ نے کراہ کر پوچھا۔ ”میاں اب کیا کہتے ہو؟“۔
”تمہارا چھکڑا تو بہت ہی پرانا ہے۔ میرا تو انجر پنجر ڈھیلا ہوگیا۔“ اود بلاؤ نے باگیں کھینچیں۔ لومڑ گاڑی رک گئی۔
”میاں خرگوش نیچے فوراً اتر جاؤ۔“
”کیوں؟“ میاں اکڑفوں کی سٹی گم ہوگئی۔
”میرے بھائی تم پیدل چلو تو زیادہ بہتر ہے۔ یہ چھکڑا تمہاری شان دار شخصیت کے قابل نہیں۔“
”میں تو …… میں تو ……“۔
”فوراً نیچے اترو۔ سیٹ سخت ہے، میں پھیل کر بیٹھا ہوں ، لومڑ رینگ رہا ہے، چھکڑا پرانا ہے۔ جاؤ جا کر کوئی شاہی سواری ڈھونڈو۔‘‘ اود بلاؤ کی قوت برداشت جواب دے گئی۔
میاں اکڑفوں نے اپنی واسکٹ اٹھا کر کندھے پہ ڈالی اور منہ لٹکائے گاڑی سے نیچے اتر گئے۔ اب لومڑ گاڑی آگے تھی اور پیچھے پیچھے میاں اکڑفوں گھسٹ رہے تھے۔ بار بار واسکٹ کی جیب سے رومال نکال کر پسینہ پونچھتے۔ آخر ان کی ساری اکڑفوں، پھوں پھاں غائب ہوگئی۔ ذرا آگے بڑھ کر بولے۔
”بھیا! ایک موقع اور دے دو۔ اب میں ایک لفظ بھی نہ بولوں گا۔ بس چپ چاپ ایک کونے میں دبکا بیٹھا رہوں گا۔“
اود بلاؤ کو آخر کار اس بوڑھے اور تھکے ماندے خرگوش پہ ترس آہی گیا اور اس نے ایک مرتبہ پھر میاں اکڑفوں کو اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔
خاصی دیر تک چپ بیٹھنے کے بعد جونہی میاں اکڑفوں کی آواز اود بلاؤ کو سنائی دی وہ جھلا کر مڑا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا۔ میاں اکڑفوں نے جلدی سے کہا۔
”بھیا بگڑو نہیں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ اس جھلستی پگڈنڈی پہ میرے پاؤں جلے جا رہے تھے۔ اوپر سے سورج آگ برسا رہا تھا۔ واقعی تمہاری گاڑی نعمت سے کم نہیں۔“
”ہاں یہ بات درست ہے ،مگر تم ایک اور بات بھول رہے ہو۔“
”وہ کیا؟“۔
”تم خود سوچو“۔
میاں اکڑفوں سوچتے رہے۔ گاڑی چلتی رہی۔ چرخ چوں ، چرخ چوں ، چرخ چوں۔
”میں گاڑی میں بیٹھ کر بہت خوش ہوں۔ بھیا اود بلاؤ! تمہارا بہت بہت شکریہ۔“اچانک وہ چلا اٹھے۔
”ہاں اب تم بالکل درست سوچ رہے ہو۔ میری گاڑی بری بھلی جیسی بھی ہے۔ میں نے تمہیں پیدل چلتے دیکھا اور اس میں بیٹھنے کی دعوت دے دی۔ جواب میں تمہیں میرا شکریہ ادا کرنا چاہئے تھا نہ کہ گاڑی کو برا بھلا کہنا چاہئے تھا۔ بہرحال تمہیں احساس ہوگیا۔ میں بہت خوش ہوں۔“
میاں خرگوش بھی خوش تھے اور گاڑی چلتی جا رہی تھی۔ جانورستان کی جانب جواب زیادہ دور نہ تھا۔ چرخ چوں ……چرخ چوں ……چرخ چوں …… کی صدا اب میاں اکڑفوں کو بہت خوش گوار معلوم ہو رہی تھی۔